بدعنوانیاں کریں صاحبان،عذاب جھیلیں عوام
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
پاکستانی معیشت اتار چڑھاﺅ اور عدم استحکام کا شکار رہتی ہے جو ملک کا بنیادی مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں صرف مہنگائی ہی نہیں بڑھتی بلکہ گداگری اور غربت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ پیٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر گھرانوں میں مہینے بھر کا اکٹھا سودا لانے کا رواج دن بدن ختم ہوتا جارہا ہے۔ اقوا متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران مہنگائی میں دگنا اضافہ ہواہے۔ سب سے زیادہ اضافہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ریکارڈ کیاگیاہے ۔
آزادی سے لے کر آج تک وطن عزیز میں ترقی کا عمل نہ ہونے کے برابر رہا۔ ابتداءہی سے غلط پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعدازاں پالیسیوں میں مسلسل ناکامی سے ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ تاحال کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ ہونے کے سبب اب صورتحال مزید سنگینی کی طرف جاتی نظر آرہی ہے جس کی اصل وجہ اور سب بڑامسئلہ غربت ہے جو ذمہ داران کی نااہلی ، جرائم اور سماجی کمزوریوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ غریب بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
صدقہ و خیرات کو زندگی کے مصائب اور بیماریوں کیلئے ڈھال سے تشبیہ دی گئی ہے لیکن د یکھا گیا ہے کہ اس بات کو جواز بناکرمانگنے والے ناجائز مطالبات کرتے ہیں اور کسی نہ کسی انداز میں بھیک کی لعنت سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ گداگری عالمی مسئلہ ہے جو افسوسناک امر ہے۔ ویسے بھیک کا پیشہ آسان ترین ہونے کے سبب منافع بخش کاروبار بن چکا ہے ۔ ملک میں بھکاریوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس کے انسداد کیلئے عملی اقدامات کرے۔ بیروزگار ، غریب و نادار افراد کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کرے ۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ہاں کے بعض سرکاری محکموں کی طرح حکومتی بیت المال میں بھی کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور دھوکہ دہی کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہر سال محض کاغذی کارروائی کرکے فائلوں کا پیٹ بھر دیا جاتاہے ، غریب بے چارہ اپنا حق مارے جانے پر آواز بھی نہیں اٹھاپاتا۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں ایک خاتون اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے ایک چھوٹی سی دکان کھولے بیٹھی گاہکوں کا انتظار کررہی ہے کہ شاید کوئی آجائے اور دو پیسے اسے مل جائیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے خوددار شہریوں کی مدد کرے تاکہ گداگری جیسی لعنت کا خاتمہ ہوسکے۔ ابتداءمیں انسداد گداگری کے اقدامات سے یہ لعنت مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوگی لیکن اس میں کمی ضرور لائی جاسکتی ہے۔ روزی کمانا انسانی ضروریات میں سے اہم ترین ضرورت ہے۔ انسان زندگی کی تکمیل اور اصلاح کیلئے حصول رزق کی کوشش کرتا ہے ۔ ہمیں رزق حلال کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ حرام کمائی انسان کو دنیا میں ظاہری طور پر آسائش و آرام تو دے سکتی ہے مگر آخرت میں ایسے شخص کو عذاب بھگتنا پڑے گا۔ حرام کمائی کرنے والا خود کو عذاب کی جانب دھکیلتا ہے ۔
آج لوگوں کی اکثریت اولاد کی نافرمانی، مختلف پریشانیوں، ناگہانی آفات، بے اطمینانی اور بے چینی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔اگر تھوڑی دیر کیلئے غور کریں تو اندازہ خود ہی ہوجائے گا کہ ہماری آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ حرام کی کمائی سے فرد واحد ہی نہیں ڈوبتابلکہ معاشرہ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام کی کمائی سے بچنے والا بنائے، آمین۔
گداگری ہمارے معاشرے میںجس تیزی سے پھیل رہی ہے، اسی تیزی سے مہنگائی بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ دولت کے حصول کیلئے لوگ آسان طریقے ڈھونڈ رہے ہیں جس نے محنت اور کام کرنے کی صلاحیت برباد کرکے رکھ دی ہے۔ مجبور افراد جو روزانہ کی اجرت پر کام کرتے ہیں ،سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ کراچی کو ملک کی معاشی شہ رگ کہاجاتاہے۔ روشنیوں کے اس شہر کو ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن بیروزگاری اور غربت میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی نے یہاں آنے والوں کو بہت ہی ناامید کردیاہے۔ایک وقت تھا جب لوگ بڑی آس اور امید لے کر کراچی آتے تھے جنہیں کوئی نہ کوئی کام ضرور مل جاتا تھا مگر آج تمام آسیں اور ا میدیں سراب ثابت ہونے لگی ہیں۔
کراچی جیسے شہر میں معاشی عوامل تو اپنی جگہ لیکن دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث بھی بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے ۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے تمام تر بدانتظامیوں کے باوجود ملک میں اناج کی کوئی قلت نہیں۔ ہمارے بعض صاحبان کی لاپروائیوںاور بدعنوانیوں کی وجہ سے معصوم غریب عوام کو مہنگائی کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملکی خواتین کو آسان اقسام پر کاروبار کیلئے بلاسودی قرضے فراہم کرے تاکہ وہ در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائیں۔ بآسانی گھر بیٹھ کر کوئی کام کریں تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
عنبرین فیض
دکان
کاروبار
خاتون