سفر کے دوران قصر کی بجائے پوری نماز پڑھنے والوں پر تعجب ہے کہ وہ نہ صرف سنت رسول کو ترک کرتے ہیں بلکہ خود اپنے امامِ مجتہد کی مخالفت بھی کر جاتے ہیں
***محمد منیر قمر۔ الخبر***
مشہور مقولہ ہے کہ ’’سفر وسیلۂ ظفر ہے۔‘‘ ممکن ہے بعض پہلوئوں سے یہ بات صحیح ہوکیونکہ مسند احمد میں ایک حدیث ہے:سفر کرو ! صحت مند رہو گے اور غزوہ و جہاد کرو! غنی ہو جاؤ گے۔
علامہ مناویؒ فرماتے ہیں کہ سفر و غزوہ کے ایک ساتھ ملانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس سے سفرِ جہاد مراد ہے۔ علامہ مناویؒ نے اس حدیث کو صحیح اور علامہ سیوطیؒ نے حسن قرار دیا ہے۔شیخ البانی نے اسے ضعیف شمار کیا ہے لیکن حبیب کبریاء حضرت محمد مصطفی کے ایک ارشاد ِ گرامی سے تو کچھ اور ہی بات مترشح ہوتی ہے۔ آپ نے تو سفر کو عذاب کا ایک حصہ قرار دیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم‘ مسند احمد‘ مؤطا امام مالک‘ ابن ماجہ اور دیگر کتب حدیث میں ارشادِ نبوی ہے:سفر عذاب کا ایک حصہ ہے،وہ تم میں سے ہر کسی کو (بروقت) کھانے پینے اور نیند (و آرام کرنے) سے روکتا ہے،پس جب تم میں سے کوئی شخص (سفر کا باعث بننے والی) ضرورت پوری کر لے تو اسے چاہئے کہ پھر جلد اپنے اہل خانہ کی طرف لوٹ جائے۔
سفر میں سہولتیں:
سفر انسانی زندگی کا ایک جزہے اور مذکورہ ارشادِ نبویکی رو سے یہ باعث مشقت بھی ہوتا ہے۔ آج چاہے سفر کی بے شمار سہولتیں مہیا ہیں مگر مجموعی طور پر سفر کا پُرمشقت ہونا ایک حقیقت ہے اور ہمارے دین اسلام کا یہ امتیاز ہے کہ یہ دین فطرت ہے اور انسانی احوال کے مطابق ہی احکام دیتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سفر کی مشقتوں کے پہلو کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ کریم میں اور نبی اکرم نے احادیث شریفہ میں اپنے ماننے والوں کو بہت سی آسانیاںعطا کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ دورانِ سفر4 فرضوں والی نمازوں کی صرف2رکعتیں پڑھ لے۔ ظہر و عصر اور پھر اسی طرح مغرب و عشاء کو جمع کر کے کسی ایک کے وقت میں دونوں کو ہی ادا کر لے تو اس کا فرض ادا ہو گیا۔ نمازوں کی متعلقہ مؤکدہ و غیر مؤکدہ سنتیں نہ پڑھے تو کوئی مؤاخذہ نہیںبلکہ کھلی رخصت ہے البتہ فجر کی سنّتیں اور نمازِ وتر سفر کے دوران بھی نبی پڑھ لیا کرتے تھے جو اِن دونوں کی فضیلت کا ثبوت ہے۔ اسی طرح سردیوں کے موسم میں مقامی آدمیوں کیلئے موزوں یا جرابوں پر مسح کی مدت 24 گھنٹے مگر مسافر کیلئے 3 دن اور 3 راتیں ہیں ۔ علیٰ ہذا القیاس‘ ہمارا دین انتہائی فطری و آسان ہے۔
نماز قصر کے دلائل:
ہمارے پیش نظر اس وقت یہاں دین اسلام کی خصوصیات و امتیازات میں سے صرف ایک ہی پہلو ہے اور وہ ہے صلوٰۃ المسافر یا نمازِ قصر یعنی نمازِ دوگانہ۔
قرآنِ کریم میں ارشادِ الٰہی ہے:اور جب تم لوگ سفر کیلئے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں قصر و اختصار کر لو (خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں(النساء101)۔
بظاہر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں قصر صرف ’’خوف‘‘ کے وقت ہی جائز ہے لیکن نبی اکرم اور صحابہ کرامؓکے طرزِ عمل سے پتہ چلتا ہے کہ قصر ہر سفر میں جائز ہے خواہ اس میں کوئی خوف ہو یا اس کا شائبہ تک بھی نہ ہو۔
’’خوف‘‘ کے اوقات کی نماز جنگی حالات کے مطابق مختلف احوال میں مختلف انداز سے پڑھی جاتی ہے جسے ’’صلاۃ الخوف‘‘ کہا جاتا ہے جس کے بعض ضروری احکام و مسائل بھی ہم بعد میں ذکر کریں گے۔ بلا خوف و خطر سفر میں قصر کرنے کے عدمِ جواز کا جو شبہ مذکورہ آیت کے آخری کلمات سے ہو سکتا ہے اس کا ازالہ نبی اکرم نے اپنے قول و عمل سے فرما دیا ہے۔
صحیح مسلم‘ ابو دائود‘ ترمذی‘ نسائی‘ ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت یعلیٰ بن امیہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق ؓ سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ لوگ اب تک سفر میں قصر کئے جا رہے ہیںحالانکہ اللہ تعالیٰ صرف یہ فرماتا ہے کہ ’’جب تم سفر کیلئے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں قصر کر لو جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے۔‘‘ اور آج خوف کی یہ حالت باقی نہیں رہی۔ اس پرحضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:جس چیز پر آپ کو تعجب ہو رہا ہے خود مجھے بھی اس پر تعجب ہوا تھا اور میں نے نبی سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے لہٰذا تم اس کا صدقہ قبول کرو۔
قصر کی رکعتیں:
قصر کرنے پر ہر نماز کی کتنی رکعتیں پڑھی جاتی ہیں‘ اس کی وضاحت صحیح بخاری و مسلم‘ ابو دائود‘ نسائی‘ مسند احمد اور بیہقی میں موجود ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ (شروع میں) نماز کی 2رکعتیں فرض کی گئی تھیں‘پھر4 کر دی گئیںلیکن سفر کی نماز پہلے فرضوں جتنی (یعنی2 رکعتیں) ہی رہیں۔
یہ تو ظہر و عصر اور عشاء کی نمازوں کے بارے میں صریح ہے کہ سفر میں ان کی صرف2،2 رکعتیں ہی پڑھی جائیں گی جبکہ فجر کی ہوتی ہی2 ہیں اور مغرب کی 3 اور ان دونوں نمازوں کے فرضوںکی تعداد میں کوئی قصر نہیں اور ان میں قصر نہ ہونے پر امت اسلامیہ کا اجماع ہے کیونکہ صحیح ابن حبان‘ ابن خزیمہ‘ مسند احمد اور بیہقی میں حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ہے کہ مکہ مکرمہ میں2،2 رکعتیں فرض کی گئی تھیں۔پھر جب نبی ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ نے (بحکم الٰہی) ہر2 رکعتوں کے ساتھ2 رکعتوں کا اضافہ فرمایا سوائے مغرب اور فجر کے کیونکہ مغرب دن کی نمازِ وتر ہے اور فجر کی قرأت لمبی ہوتی ہے البتہ سفر کے دوران آپ پہلی ہی نماز پڑھتے تھے۔اسی طرح بخاری و ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور مسند احمد میں حضرت عائشہؓسے مروی ہے کہ مغرب پہلے دن سے ہی 3 رکعتیں تھیں اور سفر و حضرمیں برابر 3 رکعتیں ہی رہیں۔
ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ سفر میں فجر ظہر و عصر کے 2،2 فرض‘ مغرب کے 3 اور عشاء کے بھی2 فرض ہوتے ہیں۔
قصر کا حکم:
صحیح بخار ی و مسلم‘ ابو دائود‘ ترمذی‘ نسائی‘ بیہقی اور مسند احمد میں حضرت حارثہ بن وہب خزاعیؓ سے مروی ہے کہ منیٰ میں ہمیں نبی نے2 رکعتیں (نماز قصر) پڑھائی جبکہ ہم لوگ ہمیشہ کی نسبت تعداد کے لحاظ سے زیادہ اور انتہائی پُر امن بھی تھے۔
سفر میں ہمیشہ قصر:
احادیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ نبی سفر میں ہمیشہ نمازِ قصر پڑھا کرتے تھے۔ کسی معتبر روایت میں یہ منقول نہیں کہ آپ نے سفر میں کبھی 4 رکعتیں بھی پڑھی ہوں، چنانچہ صحیح بخاری و مسلم‘ ترمذی‘ نسائی اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے کہ نبی اکرم اور ابوبکر صدیقؓ و عمر فاروقؓ منیٰ میں 2 رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور حضرت عثمان غنی ؓ کا عمل بھی ابتدائے خلافت (کے 6 یا 8 سال) میں یہی تھا۔
جبکہ صحیح بخاری و مسلم‘ ابو دائود‘ ترمذی‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد اور بیہقی میں سیدناعبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے:میں نبی کی صحبت میں رہا ہوں۔ آپ سفر میں2 رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے اور حضرت ابوبکر و عمر و عثمان ؓ بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری و مسلم میں یہ بھی مذکور ہے کہ انہوں نے (سورۃالاحزاب کی آیت21)تلاوت کی:تمہارے لئے رسول اللہ کی ذاتِ گرامی میں بہترین نمونہ ہے…۔
قصر واجب یا جائز؟:
اس سلسلہ میں تو تمام ائمہ و فقہاء کا اتفاق ہے کہ نبی نے ہمیشہ سفر میں نمازِ قصر ہی پڑھی ہے البتہ اس بارے میں ائمہ کرام بلکہ صحابہ میں ہی2 طرح کی رائے پائی جاتی تھی کہ آیا سفر میں قصر واجب ہے یا صرف جائزاور دورانِ سفر پوری نماز پڑھنا افضل ہے یا قصر کرنا افضل ہے؟
مذکورہ بالا اور اسی موضوع کی بعض دیگر احادیث کی بناء پر صحابہ کرامؓ میں سے حضراتِ عمرؓ ،علیؓ ، ابن عمرؓ ؓ ، ابن عباس ؓ ۔ائمۂ تابعین میں سے حضراتِ عمر بن عبدالعزیزؓ ؓ ،قتادہ اور حسن بصری اور ائمہ و فقہا ئے احنافؒ کے نزدیک سفر میں قصر واجب ہے۔ امام مالکؒ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سفر میں4 رکعتیں پڑھ لے اور وقت ہوتے ہوئے اسے حقیقت حال معلوم ہوجائے تو وہ نماز کا اعادہ کرلے اور قصر پڑھے لیکن وجوبِ قصر کے وہ بھی قائل نہیں جبکہ صحابہ کرام ؓ میں سے حضرت عائشہؓ و عثمان ؓاور ایک روایت میں ابن عباسؓ اور ائمہ مجتہدین میں سے امام مالک‘ احمد اور شافعی رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک قصر واجب نہیں بلکہ محض رخصت ہے۔ امام نوویؒ کے نزدیک اکثر اہل علم کی بھی یہی رائے ہے۔ ان کا استدلال ایک تو سورۃالنساء کی آیت101سے ہے:اور جب تم لوگ سفر کیلئے نکلو تو کوئی مضائقہ و حرج نہیں کہ تم نماز میں قصر کر لو۔
امام نوویؒ کے نزدیک مضائقہ و حرج وجوب پر نہیں بلکہ رخصت پر دلالت کرتے ہیں۔ ایسے ہی صحیح مسلم والی حدیث سے بھی ان کا استدلال ہے کہ نبی نے قصر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’صدقہ‘‘ قرار دیا ہے۔ صدقہ کے ظاہر سے قصر کا رخصت ہونا ہی معلوم ہوتا ہے نہ کہ واجب ہونا اور ایسی ہی کئی دوسری دلیلیں بھی ہیں۔ امام شوکانی نے طرفین کے دلائل ذکر کرنے کے بعد وجوب کے راجح ہونے کے میلان کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ قصر ہی افضل ہے کیونکہ نبی ہمیشہ قصر کیا کرتے تھے اور یہ بات بعید از قیاس ہے کہ نبی عمر بھر افضل کو ترک کر کے مفضول پر عمل کرتے رہے ہوں۔جن روایات میں قصر کی بجائے تکمیل کا ذکر ہے وہ ضعیف ہیں۔
یہ ایک خالص علمی نوعیت کی بحث ہے اور طرفین کے پاس دلائل بھی ہیں۔ اب اسے واجب سمجھیں یا رخصت قرار دیں، کچھ بھی ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ نبی اپنے سفر میں ہمیشہ قصر پڑھا کرتے تھے لہٰذا ہمیں بھی قصر ہی پڑھنی چاہئے کہ یہی سنت ِرسول ہے البتہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے قصر نہیں کرتا تو اس کی نمازبھی درست ہے اور اعادے کی ضرورت نہیں۔
ہاں سفر کے دوران قصر کی بجائے پوری نماز پڑھنے والے اکثر لوگوں پر تعجب ضرور ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف سنت رسول اور افضل کو ترک کرتے ہیں بلکہ خود اپنے امامِ مجتہد کی مخالفت بھی کر جاتے ہیں۔ جب تھوڑی مشقت پر زیادہ اجر مل رہا ہو تو پھر اپنے آپکو زیادہ مشقت والے کام میں ڈالنے سے کیا حاصل؟ ویسے بھی صحیح ابن حبان اور مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ارشادِ نبویہے: اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی دی ہوی رخصتوں کو اپنایا جائے جیسا کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒنے ’’کتاب الایمان‘‘ کے شروع میں اس حدیث کے دوسرے درجِ ذیل الفاظ کا جو انکار کیا ہے یہ ان کا تسامح ہے کہ’’جیسے وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے اوامر پر عمل کیا جائے۔‘‘