سب اپنے ”مفادات “ کے چکر میں ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دونوں ”بزرگ لیڈر“بند کمرے میں معاملات حل کرلیتے جتنے بھی تکلیف دہ مسائل ہیں انہیں آپس میں خاموشی سے حل کرلیتے
زبیر پٹیل ۔ جدہ
محاورہ مشہور ہے کہ ” گھر کو آگ لگ گئی اپنے ہی چراغ سے“ یہ محاورہ بروقت یاد آیا کیونکہ ملک میں موجود لیڈروں کے ”سیاسی بیانات“ محاورے کو درست ثابت کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کے بیانات اس طرح دے رہے تھے جیسے ”چھوٹے بچے“ ہوں اور وہ امی سے ایک دوسرے کی شکایت کررہے ہوں۔سندھ میں جب تک پی ٹی آئی کی مکمل حکومت نہیں ہوگی اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کیلئے دونوں پارٹیوں کو بڑے دل کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا ورنہ دونوں پارٹیوں کی چپقلش سے تیسری پارٹی فائدہ اٹھاجائیگی اور دونوں منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
بیشتر سیاستدانوں میں سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ان میں صبر اور برداشت ہی نہیں۔ وہ صرف اپنے مفاد کیلئے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت ہے لہٰذا دونوں ایک دوسرے کو گرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور اس میں نقصان عوام اور شہر کا ہورہا ہے مگر یہ کسی کو نظر نہیں آرہا۔ سب اپنے ”مفادات “ کے چکر میں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دونوں ”بزرگ لیڈر“بند کمرے میں معاملات حل کرلیتے جتنے بھی تکلیف دہ مسائل ہیں انہیں آپس میں خاموشی سے حل کرتے، میڈیا تک یا عوام تک اس بات کو پہنچنے ہی نہ دیتے لیکن اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس حوالے سے مثل مشہور ہے کہ” بند مٹھی لاکھ کی کھل جائے تو خاک کی“ ونوں حضرات عمر اور تجربے میں کافی بڑے ہیں مگر نہایت ادب کے ساتھ انکے بیانات سے لگ رہا تھا جیسے ابھی” بچپنا “ ختم نہیں ہوا۔