راقم کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ لکھتے وقت قومی معاملات کو زیر بحث لایا جائے اور ہمیشہ پاکستان کو فوقیت دی جائے۔ آج کا موضوع بھی ایسا ہی ہے جو من حیث القوم ہمیں درپیش ہے۔ اللہ کا بے انتہا کرم ہے کہ اس کی ذات کریم نے سلسلہ روزگار اس مقدس جگہ لکھ دیا ہے اور اس توسط سے یہ سہولت فراہم کر رکھی ہے کہ ویزے کی مشکلات کے بغیر کسی بھی وقت بیت اللہ اور روضہ رسولکی حاضری ممکن ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے یہاں کے مقیمین کیلئے سفری صعوبتیں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں کہ ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے دو یا تین دنوںکے لئے تنہا سفر کرنا کوئی کٹھن امر نہیں،انسان جیسے تیسے معاملات سے سمجھوتہ کر لیتا ہے لیکن اصل مشکل ان زائرین کیلئے ہے جو سمندر پار سے یہاں آتے ہیں۔
یہ زائرین اس ارض مقدس پر اس لئے حاضر ہوتے ہیں کہ کسی طرح تسکین قلب و جاں حاصل کر سکیں اور بالعموم ان کے ویزے کی مدت تقریباً 15 روز کیلئے ہوتی ہے،جس میں انہیں 6 روز کیلئے مکہ مکرمہ اور تقریباً 8 روز کیلئے مدینہ منورہ قیام کرنا ہو تا ہے۔ اس قیام کے پہلے اور دوران قیام ان زائرین کو کیسے کیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس سے چشم دید آگاہی گذشتہ سفر حرمین میں ہوئی۔ مستقل قارئین کو علم ہے کہ نومبر 2018میں میری ہمشیرہ شدید علالت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو ئیں،گو کہ میری انتہائی کوشش کے باوجود وہ حرمین شریفین کی زیارت سے محروم رہی،واللہ اعلم بالصواب۔ برادر خورد،چھوٹی ہمشیرہ اور دو بھانجوں کی حاضری منظور ہوئی اور انہوں نے رخت سفر باندھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق پہلے 4 روز مدینہ میں قیام تھا ،جو بفضل تعلی خوب رہا گو کہ وعدے کے مطابق ہوٹل سے حرم کا فاصلہ زیادہ تھا مگر شوق نے اس فاصلے کو در خور اعتنا نہ جانا(جبکہ میرے لئے یہ فاصلہ واقعتاً کوئی اتنا زیادہ نہ تھا) 4 دن بعد رخت سفر مکہ کیلئے باندھااور ایک بار پھر قیام، اڑھائی 3 سو میٹر کی بجائے زیادہ نکلا،جو قابل فہم تھا مگر اصل مسئلہ ہوٹل کی عمارت کا تھا کہ زیبائشی چھتوں نے عمارت کی بوسیدگی کو چھپا رکھا تھا ،واش روم کی چھت مسلسل ٹپک رہی تھی،کمرہ انتہائی نامناسب اور نا کافی سہولیات کے ساتھ۔ مقامی ایجنٹ سے بات کرنیکی بجائے پاکستان میں ایجنٹ کو شکایت کی،مگر بے سود کہ مقامی ایجنٹ کے کان پر جوں تک نہ رینگی بلکہ اس شکایت کا ازالہ کرنے کی بجائے الٹا انا کا مسئلہ بنا لیا یا ان ایجنٹس کا بالعموم رویہ ہی یہی ہے۔ بہر کیف مکہ میں قیام نہ صرف اسی ہوٹل میں رہا بلکہ اس دوران میرا پیر بھی شدید زخمی ہوا کیونکہ ایک تو واش روم انتہائی تنگ کہ دروازہ کھولتے وقت آپ کی ٹانگیں پیچھے کموڈ سے جا لگتی جبکہ دروازے کے نچلے حصے پر لگی دھاتی پلیٹ تک اکھڑی ہوئی اور انتہائی تیز دھار،جس پر باہر نکلتے وقت پیراس نوکدار دھاتی پلیٹ سے جا ٹکرایا۔ مکہ المکرمہ میں 6 روز قیام کے دوران اسی مشکل سے دوچار رہے کہ اب کمرہ تبدیل ہوتا ہے کہ تب مگر سب بے سود اور آخر وقت تک یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
مدینہ واپسی پر بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑا ،جب دیا گیا کمرہ انتہائی مختصر ،اس قدر چھوٹا کہ سامان رکھنے کے بعد چلنے پھرنے سے بھی معذور،حد تو یہ کہ دو بیڈز کے درمیان خالی جگہ بھی مفقود،بیڈ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے،خدا کی پناہ،کیسے مادہ پرست لوگ ہیں!!! عملاً ان کا رویہ کاروباری سے زیادہ ٹھگوں والا، مجال ہے کہ آپ کی کسی شکایت کا ازالہ کریں،آپ مسلسل شکایت کرتے رہیں ،انتہائی اعتماد کے ساتھ جھوٹ در جھوٹ بولتے رہیں گے کہ بس ابھی ایک گھنٹے میں ،دس منٹ میں آپ کی شکایت کا ازالہ کر رہے ہیں مگر آپ کے پورے قیام کے دوران نہ یہ ایک گھنٹہ ختم ہو گا اور نہ ہی10 منٹ تاآنکہ آپ واپس چلے جائیں۔ اس سے اگلی کارروائی اس سے بھی زیادہ خطرناک ، جان لیوااور کوفت والی ہو گی،بقول ان ایجنٹس کے یہ ضیوف الرحمن کی خدمت پر مامور ہیں ،لیکن ہو ٹل سے واپس ائیر پورٹ چھوڑنے کیلئے ان کی ترجیح فقط اپنے قوانین ہیں ،ضیوف الرحمن کی سہولت قطعی نہیں،انہیں ان سے غرض نہیں کہ فلائیٹ کس وقت ہے اور زائر ین کو کتنا وقت ائیرپورٹ پر انتظار کی کوفت کا سامنا کرنا ہو گا۔ گھر والوں کی واپسی پی آئی اے سے تھی(کہ میری ہمیشہ یہی ترجیح رہی ہے کہ قومی ائیر لائن سے سفر کیا جائے)،معمول کے مطابق فلائیٹ کا وقت 10:45رات کو تھا مگر پاکستان میں دھند کے باعث اس موسم میں بالعموم اڑان کامعمول متاثر ہوتا ہے،لہذا پی آئی اے کی طرف سے اطلاع موصول ہو چکی تھی کہ فلائٹ رات 2 بجے ہو گی لیکن موصوف بضد کہ آپ کی فلائیٹ کا وقت پونے گیارہ بجے ہے ،اس لئے گاڑی آپ کو 7/ 8 بجے ائیرپورٹ چھوڑ آئے گی۔ بہت کہا،بہت سمجھایا کہ جناب والافلائٹ کا وقت تبدیل ہو چکا مگر نتیجہ وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔رات کے آخری پہر گھر والوں کو ائیرپورٹ چھوڑ کر واپس کمرے میں لیٹا ہی تھا کہ رات کے ساڑھے 3 بجے نئے ضیوف الرحمن ،نئی چابی کے ساتھ کمرے میں آن وارد ہوئے کہ یہ کمرہ ان کا ہے اور میں وہاں کیا کررہا ہوں؟؟جبکہ میری بکنگ اس دن صبح تک تھی۔
سعودی حکومت زائرین کی سہولت کیلئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے مگر ایسے مادہ پرست ایجنٹس،ان سارے اقدامات کا ستیا ناس کر رہے ہیں،زائرین کے لئے سہولتیں اسی صورت ممکن ہیں جب ایسے ایجنٹس حکومتی نیت کو سمجھ کر ’’کاروبار‘‘ کریں نہ کہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایک سے دوسرا مدیر حالات جاننے کی کوشش میں زائرین کا وقت ضائع کرے اور انہیں سکون قلب و راحت روح سے محروم رکھے۔