اجودھیا تنازعہ پر ایک سچی کتاب
اجودھیاتنازعہ پر سپریم کورٹ میں سماعت ملتوی ہونے سے رام مندر کے حامیوں کو ایک بار پھر مایوسی ہاتھ لگی ہے۔ سنگھ پریوار نے اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا شور اس درجہ بلند کررکھا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جولوگ آج رام مندر کو ملک کے ہر مسئلے کا حل قرار دے رہے ہیں، انہوں نے ایک زمانے میں خود رام مندر کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور اس مسئلے کو سیاسی مقاصد کے تحت مزید طول دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ انکشاف اجودھیا تنازعہ پر شائع ہونے والی ایک تازہ کتاب میں کیاگیا ہے۔مجھے یاد ہے کہ اس تنازعہ کے عروج کے زمانے میں ہم جب کبھی رپورٹنگ کے لئے اجودھیا جاتے تھے تووہاں ایک ایسے شخص سے ضرور ملتے تھے جو اس تنازعہ کی سیاسی سازشوں سے پردہ اٹھاتا تھا۔ یہ شخصیت تھی فیض آباد سے شائع ہونے والے ہندی روزنامہ ’جن مورچہ‘ کے ایدیٹر شیتلا سنگھ کی۔ حال ہی میں جب اجودھیا تنازعہ پر ان کی کتاب ’’ایودھیا: رام جنم بھومی، بابری مسجد کا سچ‘‘ منظرعام پر آئی تو ایک بار پھر ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا اور یہ پوچھنے کا بھی کہ اس تنازعہ کو بہت قریب سے جاننے والے ایک جہاندیدہ صحافی نے اپنی کتاب شائع کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی۔ نئی دہلی کے عالمی کتاب میلے میں اس کتاب پر ایک مذاکرے میں شرکت کے لئے جب وہ دہلی تشریف لائے تو میں نے ان کے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے چرالئے۔ شیتلا سنگھ ایک انتہائی تجربے کار اور وسیع النظر صحافی ہیں۔ 87 سال کی عمر میں اگرچہ ان کے قویٰ پہلے کی طرح مضبوط نہیں ہیں لیکن ان کی آنکھوں میں وہی چمک برقرار ہے۔ سماعت کمزور ہونے کے باوجود انہوں نے اس کتاب کے حوالے سے میرے ہر سوال کا بلند آواز میں جواب دیا۔ انہوں نے کہاکہ اس کتاب کو لکھنے کی تحریک انہیں سابق پولیس آفیسر وبھوتی نارائن رائے نے دی۔ ہندی کے مشہور ادیب وبھوتی نارائن رائے خود فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کی زیادتیوں کا پردہ چاک کرنیوالی انتہائی اہم کتاب ’’فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوستانی پولیس‘‘ لکھ چکے ہیں۔
شیتلا سنگھ کی مذکورہ کتاب میں اجودھیا تنازعہ کے سیاسی استحصال کی پرتیں ہی نہیں کھولی گئی ہیں بلکہ ملک کی 2بڑی سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں ایک دوسرے کا معاون اور مدد گار بھی بتایاگیا ہے۔ شیتلا سنگھ کا کہنا ہے کہ جس پارٹی (وشوہندوپریشد) کا اس تنازعہ سے کبھی کوئی سروکار ہی نہیں تھا وہ 1984سے خود کو اس تنازعہ کا اصل فریق سمجھ رہی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ 1987میں جب اجودھیا کے ہندو اور مسلمان اس تنازعہ کو حل کرنے پر رضامند ہوگئے تھے تو کس طرح اس وقت کے آر ایس ایس چیف بالا صاحب دیورس نے اسے یہ کہتے ہوئے سبوتاژ کردیاتھا کہ ہمارا مقصد رام مندر بنانا نہیں بلکہ اس مسئلے کا سیاسی استعمال کرکے اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔ شیتلا سنگھ کی یہ کتاب ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ اجودھیا تنازعہ میں تمام پیچیدگیاں سیاست دانوں نے اپنا الّو سیدھا کرنے کے لئے پیدا کیں۔ اس تنازعہ کے سیاسی استحصال کی تمام پرتیں چاک کرتے ہوئے یہ کتاب اس تلخ حقیقت کو بھی بے نقاب کرتی ہے کہ ایک طرف جہاں اسے دومذہبوں کے درمیان کا تنازعہ سمجھ کر حل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں تو وہیں دوسری طرف سیاست کے غیر مرئی ہاتھ ان کوششوں کو سبوتاژ کرتے رہے ہیں۔ شیتلا سنگھ کی کتاب یہ تفصیل بھی بیان کرتی ہے کہ آزادی کے بعد کس طرح کانگریس اس تنازعہ میں نہ صرف 1990-92 کی بی جے پی بلکہ اس سے قبل جن سنگھ اور اس سے بھی پہلے ہندومہاسبھا سے ’ہندوکارڈ‘ کی چھینا جھپٹی کرتی رہی ہے۔ آج کانگریس شکوہ کرسکتی ہے کہ 1990-92 وہ اس چھینا جھپٹی میں ناکام ہوگئی لیکن نئے نئے آزاد ہندوستان میں اترپردیش اسمبلی کے پہلے ضمنی انتخاب میں اس نے اسی ’ہندوکارڈ‘ کا استعمال کرکے سوشلسٹ لیڈر اچاریہ نریندردیو کو نہ صرف چناؤ ہرایا بلکہ ان کے خلاف مہم بھی چلائی۔ اتنا ہی نہیں انہیں شکست دینے والے کانگریسی ایم ایل اے راگھو داس نے کھلے عام بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے کی سازش رچنے والوں کی حمایت بھی کی۔ شیتلا سنگھ کے مطابق ’’ہندو کارڈ کی چھینا جھپٹی کی اس سیاست کا عکس یکم فروری 1986کو بابری مسجد کا تالا کھولے جانے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ 9نومبر 1989 کو کئے گئے رام مندر کے شیلا نیاس میں بھی۔ 6دسمبر 1992 کو انہدامی کارروائی میں بھی اور اس کے بعد قانون بناکر یا آرڈیننس لاکر مندر تعمیر کرانے کے وعدوں میں بھی۔ ‘‘شیتلا سنگھ نے اپنی کتاب میں بڑی جرأت کے ساتھ یکے بعد دیگرے حقائق ، ثبوتوں ، دستاویزوں اور واقعات کو سامنے لاکر اس تنازعہ کو الجھانے والی پس پردہ سازشوں اور اندرونی کہانیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ اس تنازعہ کو ہمیشہ کیلئے اجودھیا کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا قاتل بننے سے روکنے میں ہرممکن حصہ لے سکیں۔ شیتلاسنگھ کی کتاب کا سب سے کارآمد حصہ وہ ہے جس میں انہوں نے یکم فروری 1986کو فیض آباد کی ضلع عدالت کے ذریعے بابری مسجد کا تالاکھولنے کے حکم کے بعد کے حالات کی تفصیل بیان کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت اس تنازعہ کو ناسور بننے سے روکنے کیلئے اجودھیا کے ہندومسلم باشندوں کی طرف سے طے کئے گئے فارمولے کو آر ایس ایس کی قیادت نے اس لئے سبوتاژ کردیا کہ اسے اس تنازعہ کے بھڑکنے سے ہندوؤں میں آرہی’ ’بیداری‘‘ کا استعمال ملک کے اقتدار پر قبضے کے لئے کرنا تھا۔ اس تنازعہ کو حل کرنے کی بعد میں کی گئی مزید کوششوں کو بھی اسی نظریے نے ساقط کیا کہ وہ کسی بھی سمجھوتے میں دوسرے فریق کی مکمل خودسپردگی سے کم کچھ بھی قبول نہیں کرے گا۔