تسنیم امجد ۔ریا ض
آج بھی حسبِ معمول طفیل نے چائے کا کپ پٹخا اور بڑ بڑاتے ہوئے گھر سے نکل گئے ۔نادیہ کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہاتھا کہ اس میں کیا کمی ہے کہ شوہر کا مزاج ہر وقت اکھڑا اکھڑا رہتا ہے ۔شادی کے بعد وہ بمشکل ایک ماہ ہی سسرال میںرہی تھی پھر اسے کراچی آنا پڑا کیونکہ طفیل کی ملازمت وہاں تھی ۔گھر والوں سے دور رہنے کے بعد تو یہ بالکل بدل گئے تھے ،وہ سوچتی تھی کہ :
آنکھوں کا رنگ ،بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک لمحے میں کتنا بدل گیا
کچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھر یوں ہوا کہ خود مرا چہرہ بدل گیا
وہ شوہر کی پسندو نا پسند کا ہر دم خیال رکھتی۔کھانا کھاتے کھاتے ایک دم کہتے کہ یہ اچھا نہیں بنا جبکہ سارا کھانا چٹخارے لے کر کھاتے۔ وہ سوچتی کہ چکھتے ہی انہیں ا حساس نہیں ہوا ۔وہ دفتر سے گھر آ تے ہی دوستوں کی طرف نکل جاتے۔ رات کوآنے کے بعد ا خبار پڑھتے اور فون پر لگے رہتے ۔نا دیہ کو حسرت تھی کہ کبھی اس سے بھی با تیں کر لیں۔دن بھر کیا ہوا یا اس کی کیا خواہش ہے ،پو چھ ہی لیں تو اس کی دن بھر کی تھکاوٹ اور بیزاری کافور ہو جائے گی ۔آفس سے ڈرائیور آ جاتا اور وہ خود ہی سودا سلف بھی لے آتی ۔اس کے لئے اس کے شوہر بجٹ بہت ہی محدود دیتے تھے ۔اپنے لئے کچھ لینے کے لئے ما نگتی تو کہتے کہ ابھی تو شادی ہوئی ہے ،کیا ضرورت ہے فضول خرچی کرنے کی ۔کبھی چھٹی کے دن وہ کسی تفریح کو کہتی تو کہتے کہ کسی پڑوس وڑوس والی کے ساتھ پروگرام بنا لیا کرو ۔تم بچی ہو کہ انگلی پکڑ کر لے کر جاﺅں ۔وہ خاموشی سے منہ تکتی رہ جاتی ۔
اسے بابا یاد آتے جو سب کو ویک اینڈ پر گھمانے کے لئے ضرور لے جاتے اور ہم ماما کے ساتھ پہلے ہی جگہ کا انتخاب کر لیتے ۔یوں لگتا تھا کہ عید کا دن ہے ۔اس نے کئی مرتبہ شوہر سے پو چھنا بھی چاہا کہ اس بگڑے موڈ کی وجہ بتائیں لیکن وہ ٹال جاتے ۔اسی طرح دوسال گزر گئے ۔اللہ کریم نے ایک پیارا سا بیٹا بھی عطا فرما دیا ۔اس کے ساتھ ان کا مزاج مختلف ہوتا ۔اسے گود میں لیتے ،پیار کرتے ،اب دوستوں کی طرف وقفوں سے جاتے ۔نادیہ خوش تھی کہ چلو اس کی تنہائی تو ختم ہوہوئی لیکن اس کا وجود ان کے لئے ایک ملازمہ کا سا رہتا ۔اس کے لئے بھی منا ہی اب اس گھر میں رہنے کا جوازتھا ۔
ایک روز نادیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر جانے کی اجازت طلب کر ے ۔شام کو کھانے کے بعد اس نے اپنا مد عا ڈرتے ڈرتے بیان کیا۔طفیل نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہاکہ جیسے تمہاری مر ضی ۔میںتمہاری سیٹ بُک کروا دیتا ہوں ۔نادیہ کا دل چاہاکہ کاش وہ اسے کچھ اور جواب دیتا ۔اسے نہ جانے کا کہتالیکن وہ تو شاید منتظر تھا ۔وہ لڑ کھڑاتے قدموں سے دوسرے کمرے میں آ گئی ۔
اس کی حالت ہارے ہوئے اس انسان کی سی تھی جو اپنے اندر خوابوں کی قبریں بناتے بناتے انسانوں سے کٹ جاتا ہے ۔پہلی قبر، دوسری قبر،تیسری قبر،دل دل نہیں رہتا ،قبرستان ہو جاتا ہے اور قبرستانوں میں کیا ہوتا ہے ؟؟گہرا سناٹا۔
نادیہ سے ہماری ملاقات گزشتہ ہفتے ہوئی تھی ۔وہ اپنے بھائی کے گھر پر ہے۔وہ لوگ جرمنی شفٹ ہو گئے اور گھر خالی تھاچنانچہ اسے بہن کے سپرد کر دیا ۔خوش تھے کہ اس طرح گھر کی حفا ظت بھی ہو گئی اور بہن کو ٹھکانہ بھی مل گیا ۔اس نے منے کو بھی بھائی کے ساتھ بھیج دیا ۔وہ اب انجینئرنگ کا اسٹو ڈنٹ ہے ۔نادیہ گھر ہی میں قرآن کریم کی کلاسیں کرواتی ہے ۔ٹیچر کو بھی کوئی جگہ چا ہئے تھی، اپنے علم کی ترویج کے لئے۔اس طرح ہر کوئی ایک دوسرے کا مداوا بن گیا ۔اس کی آ نکھیں بھرآئیں۔کانپتے ہو نٹوں کو دانتوں میںدبا لیا ۔آ نچل سے منہ ڈھانپ کر رونے لگی ۔پھر بولی ”طفیل صا حب کا فون آتا ہے کبھی کبھی ۔منے کے بارے میں پو چھنے کے لئے ۔منا اپنے باپ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔شعور آنے کے بعد اسنے والدین کے ا ختلاف کو اپنے ہی انداز میں سمجھا ہے ۔میں نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ کہتا ہے کہ آپ میرے باپ کی وکالت نہ کریں۔میں اب بچہ نہیں ۔
سسرال سے میرا رابطہ بھی نہیں ۔ساس ایک دن بازار میں ملی تھیں ۔کچھ دیر کے لئے ہم قریب ہی فروٹ چاٹ کی دوکان میں بیٹھ گئے ۔وہ اپنے بیٹے کے لئے بہت شر مندہ تھیں ۔کہنے لگیں ہمیں کیا علم تھا کہ وہ کسی اور کو پسند کرتا تھا ۔اس کی کلاس فیلو تھی ۔ہمیں بتا دیتا تو ہم کبھی من مانی نہ کرتے ۔اب وہ اسی کو بیاہ کرگھر لے آیا ہے ۔وہ ایک کر سچن لڑ کی ہے ۔اس کے والدین عراق کے حالات خراب ہونے پر وہیں رہ گئے۔وہ پاکستان پڑ ھنے آ ئی تھی۔طفیل کی دوستی کے باعث وہ واپس ہی نہیں گئی ۔اس نے اس سے اقرار کر رکھے ہوں گے۔یہ کہہ کر میری ساس نے کچھ پیسے مجھے دینا چا ہے تو میں نے انکار کر دیااور انہیں بتا دیا کہ مجھے تو طفیل نے کم بجٹ میں گزارہ کرنے کی عادت ڈال دی ہے ۔اچھا ہی ہوا ورنہ اب بہت تکلیف ہوتی ۔
دوبارہ ملنے کے وعدے پہ ہم آ گئے لیکن سوچنے لگے کہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے کتنا صبر اور کتنی برداشت عطا فرمائی ہے ۔نادیہ جیسی کئی خواتین اس معاشرے میں اپنی خوا ہشات کی قبر پر بھول چڑھانا بھی پسند نہیں کر تیں ۔محبت ٹوٹ کر کرتی ہیں ۔انتظار بھی کر تی ہیں،بے ر خی ،لا پر وائی ،سب کچھ بر داشت کرتی ہیں لیکن جب وہ اپنی پر آجائیں تو پرواکرنا چھوڑ دیتی ہیں، پھر کوئی ان کے قد موں میں بھی گر جائے تو وہ اسے پامال کرکے بے حسوں کی طرح ایک نظر ڈال کر اپنی راہ لے لیتی ہیں ۔
عورت آج بھی مرد کی مرضی کے تا بع ہے ۔ہمارے معاشرے سے مردانہ تسلط نہیں جا سکتا ۔اس کی خوشی کی خاطر وہ گھر سے نکل کر دہری ذمہ داریوں میں بٹ جاتی ہے ۔اسے معاشی تعاون دے کر ملکہ بننے کا جھوٹا خواب دیکھتی ہے ۔ذمہ داریوں کی بانٹ میں وہ یہ بھول جاتی ہے کہ اس پر ما ضی کا ٹھپہ لگا ہے ،اسے پاﺅں کی جو تی کہا گیا ،اس کے ا ثرات کبھی جا نہیں سکتے ۔اس تسلط میں اس کی پرورش کا بھی بڑا دخل ہے ۔ہمارے ہاں لڑکوں کو لڑکیوں پر فو قیت دی جاتی ہے ۔ان کی پیدائش پر خو شی کے ا ظہار کے لئے کیا کیا نہیں ہوتا ۔ایسا بھی دیکھا گیا کہ اگر ایک گھر میں بیٹا اوربیٹی دونوں ملازمت کریں توماں بیٹے پر صدقے واری جاتی ہے ۔میرا ”کماﺅ پوت“ کہتے وہ تھکتی نہیں اور بیٹی سے اس کی تنخواہ پکڑ کر صرف مسکرا دیتی ہے ۔بیٹی کو تو وہ مسکراہٹ بھی نہیں چا ہئے ہوتی ۔اس کی محبت کی گہرائی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے کہ :
”دل دریا سمندروں ڈو نگے
کون دلاں دیاں جانے“