Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غفلت کے علامات، اسباب اور علاج

انسان کے ہر عضو کیلئے ایک خاص عبادت ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے اور ہر ایک عضو سے اللہ کی خاص اطاعت مطلوب ہے

 

قاری محمد اقبال عبد العزیز ۔ ریاض
گزشتہ سے پیوستہ

    جب غفلت دل پر قبضہ جما لیتی ہے تو یہ دل کی زمین کو بنجر اور بے آباد کر دیتی ہے حالانکہ یہ اس سے پہلے انواع واقسام کی سبزیوں اور انگوریوں سے معمور تھی۔ پھر جب اس پر رحمت کی بارش پھوار بن کر برستی ہے تو دل کی ایمان واعمال والی یہ زمین حرکت میں آتی ہے اوراس میں بڑھوتری ہوتی ہے اور یہ ہر قسم کے خوشنما جوڑے پیدا کرتی ہے۔ جب دل پر قحط اور خشکی چھا جاتی ہے تو رحمت الٰہی کی یہ بارش دل کے لیے ایسی مقوی اور مرطب ثابت ہوتی ہے جیسے کہ درخت کے لیے پانی ہوتا ہے۔ جس طرح پانی ملنے سے درخت کی تازگی‘ سرسبزی‘ ،نرمی اور پھل لوٹ آتے ہیں اسی طرح رحمت کی بارش سے دل کی ویرانی رونق اور تازگی میں بدل جاتی ہے۔درخت کا پانی جب رک جاتا ہے تو اس کی رگیں خشک ہونے لگتی ہیں‘ شاخیں سوکھنے لگتی ہیں اور اس کے پھل معدوم ہونے لگتے ہیں۔ اگر یہ پانی زیادہ دیر تک رکا رہے تو گاہے یہ درخت سوکھ بھی جاتا ہے اور اس کی شاخیں بے جان ہوجاتی ہیں۔اگر آپ اس شاخ کو اپنے نفس کی طرف جھکانا چاہیں تو وہ جھکنے سے انکار کر دیتی ہے۔وہ آپ کی بات مان کر جھکتی نہیں ‘ مگر ٹوٹ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں باغ کے نگران کی حکمت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ اس درخت کو کاٹ کر اسے آگ کے سپرد کر دیتا ہے اور اس کا ایندھن بنا لیتا ہے۔غفلت انسان کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ چیز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’انہیں اُس دن سے خبر دار کر دیجیے جو سخت پچھتاوے کا دن ہو گا او رجب ساری باتوں کا فیصلہ ہو جائے گا اور وہ غفلت ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘(مریم 39)۔
    نیز ارشاد الٰہی ہے :
    ’’لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ پہنچا اور وہ غفلت میں پڑے منہ موڑے ہوئے ہیں۔‘‘(الأنبیاء1)
    غفلت کا علاج:
    «  پہلا علاج، اللہ کی معرفت:
    سب سے پہلے انسان کو اللہ کی ذات اور اس کی صفات کی پہچان حاصل کرنی چاہیے۔ اس کے بعد اس کے رسول کی معرفت اور آپ کے لائے ہوئے دین اور شریعت کی پہچان حاصل کرنی چاہیے۔جب انسان کو اللہ کے اسماء وصفات کی پہچان ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی عظمت انسان کے د ل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کادل سوائے اللہ کے کسی چیز میں نہیں لگتا اور دل سے غفلت کے تمام پردے چاک ہو کر دل پاک وصاف اورروشن ہو جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
     ’’کہہ دیجیے! کیا علم والے اور بے علم بر ابر ہو سکتے ہیں ؟( یعنی ہر گز نہیں ہو سکتے)۔‘‘(الزمر 9)۔
    رسول اللہ کا فرمان عالی شان ہے:
    ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘ (البخاری)۔
    «  غفلت کا دوسرا علاج یہ ہے کہ ہر وقت اللہ کے ذکر میں مشغول رہا جائے۔ ارشاد نبی ہے:
    ’’وہ شخص جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو نہیں کرتا،ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ ‘‘(بخاری)
     یعنی جو اللہ کو یاد کرتا ہے وہ زندہ ہے اور یاد نہیں کرتا وہ مردہ ہے ۔
    «  غفلت کا تیسرا علاج یہ ہے کہ علم اور ذکر کی مجالس میں شرکت کی جائے۔ اللہ کے رسول نے فرمایا:
     ’’جب تم جنت کے باغیچوں سے گزرو تو کچھ چر چگ لیا کرو۔‘‘
     صحابہ نے عرض کیا: جنت کے باغیچے کیا ہیں؟
    آپ نے فرمایا:
     ’’ذکر کے حلقے۔‘‘(ترمذی)
    «  غفلت کا چوتھا علاج یہ ہے کہ کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔سیدنا عثمان بن عفان فرماتے ہیں:
    ’’اگرتمہارے دل پاک صاف ہو جائیں تو تم اپنے رب کے کلام سے کبھی سیر نہ ہونے پاؤ۔‘‘
    سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
    جو قرآن سے محبت کرتا ہو وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘
    «  غفلت کا پانچواں علاج یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں کثرت سے دعا اور گریہ و زاری کی جائے۔ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے:
    ’’ جب بھی کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ سے ایسی دعا مانگتا ہے جس میں گناہ اور قطع رحمی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اس دعا کے بدلے میں 3 میں سے ایک چیز ضرور عطا فرما دیتا ہے۔ یا تو وہ دعا فوری طور پر قبول کر لی جاتی ہے یا اس دعا کو آخر ت میں دعا مانگنے والے لیے اجر بنا کر ذخیرہ کر لیا جاتا ہے یا پھر اس دعا کی وجہ سے کوئی آنے والی مصیبت ٹال دی جاتی ہے۔‘‘
     صحابہ نے عرض کیا: پھر تو ہم بہت کثرت سے دعائیں مانگیںگے۔
     آپ نے فرمایا:
    ’’ اللہ اس سے بھی زیادہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ (احمد)۔
    «  غفلت کا چھٹا علاج یہ ہے کہ پانچوں نمازوں کی باجماعت پابندی کی جائے۔رسول اللہ کا فرمان عالی شان ہے:
    ’’ جو شخص فرض نمازوں پر پابندی کرے ،وہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا۔‘‘ (ابن خزیمہ)۔
    رسول اللہ کا فرمان ذی شان ہے:
    ’’ ہر نماز کا جب وقت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ندا دینے والے کو بھیجا جاتا ہے۔وہ اعلان کرتا ہے: اے بنو آدم! اٹھو وہ آگ بجھاؤ جوتم نے اپنی جانوں پر جلائی ہے؛ چنانچہ وہ اٹھتے ہیں اور وضو کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے خطائیں گر جاتی ہیں۔ پھر جب نماز ادا کرتے ہیں تو دونوں نمازوں کے درمیانی ہونے والے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ پھر اگلی نماز تک وہ اپنے اوپر آگ جلاتے رہتے ہیں۔ جب نماز ظہر کا وقت آتا ہے تو وہ منادی پھر ندا دیتا ہے: اے بنو آدم! اٹھو اور اپنے نفسوں پر جو آگ تم نے جلائی ہے اس کو بجھا لو۔ وہ کھڑے ہوتے ہیں اور وضو کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں تو دونوں نمازوں کے درمیانی گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ جب عصرکا وقت
 ہوتا ہے تو بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب مغرب کا وقت ہوتا ہے تو بھی ایسا ہوتا ہے۔ جب عشا کا وقت ہوتا ہے تو بھی ایسا ہی ہوتاہے۔ پھر جب وہ رات کو سو جاتے ہیں تو ان کے تمام گناہ بخش دیئے گئے ہوتے ہیں۔‘‘( پھر رسول اللہ نے فرمایا): کوئی تو اندھیراہوتے ہی خیر کی طرف لپکتا ہے اور کوئی اندھیرا ہوتے ہی شر کے کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے۔‘‘ (الطبرانی فی معجم الکبیر،وحسنہ الشیخ البانی رحمہ اللہ)۔
    «  غفلت کاساتواں علاج یہ ہے کہ رات کو تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے کی کوشش کی جائے ،اگر چہ یہ قیام 10آیات کے ساتھ ہی ہو۔ اللہ کے رسول ِ نے فرمایا:
    ’’جس شخص نے رات کو10 آیات کے ساتھ قیام کیا‘اسے غافلین میں شمار نہیں کیا جاتا‘ جو 100آیات کے ساتھ قیام کرے اسے قانتین یعنی عابدین میں لکھاجاتا ہے، جو ہزار آیات کے ساتھ قیام کرے وہ مقنطرین( یعنی بے انتہا ثواب جمع کرنے والوں) میں لکھا جاتا ہے۔‘‘(رواہ ابو داؤدوصححہ الشیخ الألبانی رحمہ اللہ)
    سیدنا سہل بن سعد فرماتے ہیں :
    جبریل امین رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے محمد( )! جتنا بھی اس دنیا میں رہ لیں بالآخر آپ کو موت آنی ہے، جس سے چاہیں محبت کریں بالآخر اس سے جدا ہونا پڑے گا، جو چاہیں عمل کریں بالآخر اس کا بدلہ آپ کو ضرور ملے گا۔ جان لیجیے کہ مؤمن کا شرف قیام اللیل سے ہے، اس کی عزت اس بات میں ہے کہ وہ لوگوں سے بے پروا ہو جائے۔‘‘(المستدرک للحاکم)
    «  غفلت کا آٹھواں علاج یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا جائے۔ رسول اللہ نے فرمایا :
    ’’ لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو اکثر یاد کیا کرو۔‘‘(الترمذي وصححہ الشیخ الألباني رحمہ اللہ)
     صحیح ابن حبان کے الفاظ اس طرح ہیں:
    ’’  لذتوں کو توڑ دینے والی موت کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔ کوئی بھی شخص جب تنگی میں ہو اور وہ اسے یاد کرے تو اس کی تنگی وسعت میں بدل جاتی ہے اور اگر کوئی وسعت میں ہو اور اسے یاد نہ کرے تو اس کی وسعت تنگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔‘‘(صحیح ابن حبان)
    دل جب اللہ کی توحید سے خالی ہو جاتا ہے تو خشک ہو جاتا ہے۔دل کا یہی حال ہے۔ اگر یہ اللہ کی توحیدسے ،اس کی محبت سے ،اس کی معرفت سے اور دعاسے خالی ہو جائے تو اسے نفس کی حرارت اور شہوت کی آگ کا اثر پہنچتا ہے جس کے باعث وہ  سخت اور خشک ہو جاتا ہے۔اب وہ اعضاء وجوارح کی شاخوں کو پھیلانا اور ہلانا چاہتا ہے مگر وہ پھیلنے اور ہلنے سے انکار کر دیتی ہیں۔ جب آپ ان کو جھکانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ جھکنے سے انکار کر دیتی ہیں۔جب یہ صورت حال بن جائے تو جس طرح خشک درخت کو آگ میں جھونک دیا جاتا ہے اسی طرح سخت دل بھی آگ میں جھونک دینے کے لائق ہو جاتاہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
    ’’ہلاکت ہے ان کے لیے جن کے دل اللہ کے ذکر سے سخت ہو چکے ہیں، یہ لوگ واضح گمراہی میں ہیں۔‘‘(الزمر 22)۔
    جب اس دل پر رحمت کی بارش کی پھوار پڑتی ہے تو اس کی شاخیں تر ہو کرنرم ہو جاتی ہیں۔ ان کو آپ جس طرف موڑنا چاہیں مڑنے لگتی ہیں۔اب آپ اسے اللہ کے کسی حکم کے سامنے جھکائیں گے تو یہ فوراً آپ کے ساتھ جھک جائیںگی۔ یہ نہایت سرعت سے نرم ہو کر فرمانبردار ہو کر آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ان میں سے ہر شاخ پر لگنے والے عبودیت کے پھل چنتے ہیں اور انہیں اپنے لیے جمع کر لیتے ہیں۔ یہ پھل اس مادے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جو دل کی شاخوں میں رحمت کی بارش کے باعث پیدا ہوجاتا ہے اور انہیں نرم وتابع اور فرمانبردار بنا دیتا ہے۔ یہ مادہ دل میں بھی اور اعضاء وجوارح پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
    انسانی دل جب خشکی اور ویرانی کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کی شاخیں نیک اعمال کرنے سے عاجز ہو جاتی ہیں۔اس لیے کہ دل کا وہ مادہ اور اس کی زندگی ان شاخوں سے منقطع ہو جاتی ہے۔یہ مادہ اور روح حیات اعضاء وجوارح تک منتقل ہونے سے رک جاتی ہے۔اس طرح ہر عضو عبودیت کے ثمرات حاصل کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔انسان کے اعضاء میں سے ہر عضو کیلئے ایک خاص عبادت ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے اور ہر ایک عضو سے اللہ کی خاص اطاعت مطلوب ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:- - - - -میت کو غسل دینے والا، نومولود کی طرح گناہوں سے پاک

شیئر: