تسنیم امجد۔ریا ض
فریحہ صبح ہی صبح ا ٹھ کر تیار ہو گئی کیونکہ اسے آج ا لحمراءہال جانا تھا جہاں خطاطی کی نمائش لگی تھی ۔اس کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ اس ہا ل میںلگنے والی نمائشوں کی خبر رکھتی ہے۔اس نے خود بھی اس کی ٹریننگ ” عابد علی خان“ ٹر سٹ سے لے رکھی تھی لیکن شادی کے بعد گھر داری کی مصرو فیات نے اسے اس جانب تو جہ ہی نہ دینے دی ۔اب جبکہ بچے سکول جانے کی عمروںمیں پہنچ گئے تو اس کی توجہ پھر اپنے شوق کی جانب پلٹی ۔اس نے خطِ نستعلیق سیکھا تھاجبکہ خطِ نسخ سیکھنے کے دوران ابا میاں نے ر خصتی کا پروگرام بنا لیا ۔اس سلسلے میں اس نے اپنے شوہر سے اس کی بنیادی اشیاء،قلم ،دوات ،رنگ اوربانس کے قلموں کی فرما ئش بھی کر دی تھی۔اسے یہ فن اس لئے بھی عزیز تھا کہ اسے قر آن کریم کی کتابت میں استعمال کیا گیا ہے ۔
فریحہ سے ہماری ملاقات اکثر رہتی۔اس کے شوق اور اندازِ گفتگو بہت متا ثر کن تھے ۔اسے اپنی تاریخ سے لگاﺅ تھا۔اس نے بتایا کہ اس کے مشا غل یہی ہیںجن کا شوق اسے دادا کی وجہ سے ہوا ۔ان کا تعلق ” اردو اکیڈمی انجمن ترقی اردو“ سے تھا ۔وہ خود بھی خطاطی کا شوق رکھتے تھے ۔انہوں نے ہی اسے بتایا کہ خطاطی کا فن مسلمانوں کی مختلف زبانوں کو جو ڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
قر آن کریم کی کتابت میں اس کا اہم کردارہے ۔چھاپہ مشین ایجاد ہونے سے پہلے کاتب حضرات نے ہی ان زبانوں میں کتابت اور اشاعتوں کابیڑا ا ٹھا رکھا تھا ۔عثما نیہ دور میں ”دیوانی“ خط کو عروج ملا ۔اس کا ایک روپ ” جلی دیوانی“یا ” دیوانی الجالی“ ہے ۔ یہ ایک رول کی صورت میں مو ٹی رسی کی طرح ہوتا ہے ۔پھر ” ر قع“ خط کا ارتقاءہوا ۔اسے لکھنے کے لئے قلموں کی نوک حر فو ں کی چو ڑائی کے مطابق بنائی جاتی ہے ۔در ا صل فنِ تعمیر اور خطاطی ایک مر کب کی صورت ا ختیار کر گئے ہیں ۔یہ ایک خو شخطی کا خو شنما خط ہے ۔رومن ،لا طینی اور عربی زبانوں میں خا صا مقبول ہوا۔عربی حروف خو بصورت انداز میں لکھنے کا یہ فن مقبولیت کے عروج تک پہنچ چکا ہے ۔اسلامی سماج میں قر آن کریم کی اہمیت ،اس کی تحریر و تحفظ نے اسے کامیاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ہم یہ سو چنے پر مجبور ہو ئے کہ بزرگوں کا وجودکسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔فریحہ کی قسمت پر ہمیں رشک ہو نے لگا ۔اس کے دادا نے اسے بچپن سے ہی بڑی بڑی باتیں بتا دی تھیں ۔اسی لمحے ہمیں اپنے نانا کی بھی بات یاد آ گئی جن کے ہاں ہم حال ہی میں چھٹیاں گزار کر آ ئے تھے ۔جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ نانا جان ،”آپ ٹیکنالوجی ،اسمارٹ فون ،انٹر نیٹ اور الیکٹرانک اشیاءکے بغیر کیسے جیتے تھے “ وہ بولے ، ” جیسے آج تم لوگ محبت،وفا اور سچی دو ستی کے بغیر جی رہے ہو۔“
فنِ خطاطی بھی ہمارے بزرگوں کی ایک قدیم روایت ہے جس کا تعلق ویسے تولکھنے سے ہے لیکن یہ ہماری رو ح کی غذا ہے ۔اس کی قدامت کا یوںاندازہ لگا ئیے کہ لبنان کے شہر بیروت کی ایک عمارت میں ” تختہ کا کروس“ ہے جس پر عربی میں لکھی گئی عبارت ہے ۔اس خطاطی میں مور اور چڑ یا کی شکل میں بھی حروف لکھے جاتے ہیں ۔
معروف خطاط ،میر عماد حسنی، حامد ا لآ مدی ،اسما عیل گل جی ،صادقین،ایم جے الحبیب اور محمد قاسم ملک و غیرہ ہیں ۔حالیہ اطلاع کے مطابق ممبئی کی ایک کمپنی نے ایک ایسا سا فٹ ویئر تیار کیا ہے جس سے نہ صرف قر آ ن کریم کی خطاطی میں کمپیو ٹر کی کشش لائی جا سکتی ہے بلکہ قر آن کریم کو اپنی مطلوبہ زبان میں تر جمے سے بھی پڑ ھ سکتے ہیں۔یہ پروگرام ” ایکسیس سا فٹ میڈیا “ نے تیار کیا ہے ۔اس کمپنی کے ما لک سید منظر ہیں۔انہوں نے اس سلسلے میں خا صی کا میا بیاں حا صل کی ہیں ۔اردو کے پہلے کمپیو ٹر سا فٹ ویئر ان پیج بنانے کے علاوہ ،لاہور نستعلیق اور دیگر چا لیس غیر نستعلیق خطو ں کو بنانے میں ان کی کا میابی قا بلِ تحسین ہے ۔اس سا فٹ ویئر کو ارزاں کرنے کی بھی کو شش ہے تاکہ ہر ایک کی پہنچ میں ہو ۔اس وقت ہند میں اس کی قیمت 3000ہے ۔اس کو بنانے میں ڈیڑھ سال سے کم عر صہ لگا ۔ان کے ساتھ مالیگاﺅ ں کے ایک نو جوان عارف انجم اور سید احمد نے کام کیا ۔انہوں نے ڈیٹا بیس میںمختلف علمائے کرام کے ترا جم شامل کئے ہیں۔
ان تمام کو ششوںکے بعد اب سوال یہ ہے کہ کیا اب کا تبوں کی بالا دستی ختم ہو چکی ہے کیونکہ گھنٹو ں کا کام منٹو ں میںہونے لگا ہے۔ قر آن کریم لکھنے میں انہیں ڈھا ئی سے تین سال کا عر صہ لگتا تھا اور پیسے 5 لا کھ تک ملتے تھے ۔۱س کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ کبھی بھی قدیم روایات کی طرح اس کی اہمیت ختم نہیں ہو سکتی ۔کا تب حضرات کی بر سو ں کی محنت و مشق کو جدت ختم نہیں کر سکتی ۔ہاتھ کی محنت کا کو ئی مقا بلہ نہیں ۔یہ تو اپنے فن کے عا شق ہیں۔انہوں نے اپنے عشق کی تکمیل کا کیا خوب را ستہ ڈھونڈ نکالا ۔قر آ نی دعا ﺅں کی کتابیں اب ان کے جوہروں سے چمکنے لگی ہیں ۔تا ریخ فنِ خطاطی نادر و نا یاب ہے ۔کبھی روایات کو زوال نہیں آ تا ۔ان کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔اس سلسلے میں یہاں یہ مثال بہت بہتر رہے گی کہ :
” بارش کا ننھا سا قطرہ بادل سے ٹپکا ،جب اس نے سمندر کی چو ڑائی دیکھی تو شر مندہ ہوا ،دل میں کہا کہ سمندر کے سا منے میری
کیا حیثیت ہے ؟اس کے ہوتے ہوئے میں نہ ہو نے کے برابر ہوں ۔جب اس نے اپنے آپ کو حقارت سے دیکھا تو ایک سیپ یعنی صدف نے اسے اپنے منہ میں لے لیا اور دل و جان سے اس کی پر ورش کی ۔تھو ڑے ہی دنو ں میںیہ قطرہ ایک قیمتی مو تی بن گیا اور باد شاہ کے تاج کی زینت بنا۔“
اس لئے کبھی بھی کو ئی شے اپنی اہمیت نہیں کھو تی ۔اس کے لئے نئے نئے دروازے کھلتے چلے جا تے ہیں ۔اس کی مثال وہی ہے جیسے اردو زبان اور کتب بینی کے ساتھ سلوک کرنے کی کو شش ناکام ہو رہی ہے۔ جنہوں نے ان کی قدر کرنی ہے وہ کرتے رہیں گے ۔قدر دان ہر دور میں رہتے ہیں ۔اردو زبان کے بہت سے الفاظ کو ہم نے انگریزی کے قبرستان میں مکمل دفن کر دیا ہے ۔یہ سلسلہ ابھی جاری ہے لیکن یہ کہنا بجا ہو گا کہ قو میں اپنی روایات سے ہی پہچا نی جا تی ہیں اور فنِ خطاطی ہماری روایات کا ایک حصہ ہے۔اسلامی خطاطی صرف عربی زبان میں ہی نہیں بلکہ فارسی ،ترکی ،اردو اور آ ذری زبا نو ں میں بھی ہے ۔قر آن مجیدکی کتابت میں یہ فن بہت کار آ مداور مقبول رہا۔