Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ کائنات کے پنہاں حقائق کو لوگوں کے سامنے لانا چاہتی تھی

اُم مزمل۔جدہ
     وہ اسٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام میں منتخب کی گئی تھی۔ وہ حیرت سے ناموں کی فہرست دیکھ رہا تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ جن طلبا و طالبات نے اپنے اسانمنٹس یونیورسٹی کے کریکولم کے مطابق مکمل کئے ہیں، ان میں سے سلیکٹ کیا جائے گا جبکہ اس طالبہ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اس ” آرٹ اسکول ” کی واحد اسٹوڈنٹ ہے جس نے یہاں ایڈمیشن لیا لیکن اپنی اس بات پر مصر رہی کہ وہ کسی جاندار کی تصویر پینٹ نہیںکرے گی۔کلاس فیلوز کو حیرت ہوئی کہ آخر اسے اس یونیورسٹی میں داخلے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟
    ادارے نے اس بات کا اختیار انکے سبجیکٹ ٹیچر کو دے دیا۔انہوں نے اسے چاروں صوبوں کی ثقافت اجاگر کرنے کا ٹاسک دیا جس میں زبان ، لباس، زیورات، ہتھیار، گھریلو آرائش کی چیزیں اور طرز معاشرت ظاہر ہو۔ وہ کائنات و حیات کا فرق جانتی تھی۔ اس نے اس طور تصاویر بنائیں کہ وہاں کی مقامی زبان کے ساتھ قرآن کریم کی آیات کی بھی خطاطی کی۔ مقامی زیورات ،لباس اور ہتھیار بنائے لیکن اس بات کا خیال رکھا کہ کسی کی صورت نہ بنائی جائے ۔اس کی محنت سے کیا گیا کام ایک مثال بن گیا کہ کوئی اتنی خوبصورت پینٹنگ بھی کرسکتا ہے کہ اس میں جمالیاتی حسن جابجا بکھرا ہو اور ایک چڑیا کی بھی تصویر نہ بنائی گئی ہو۔ انہوںنے اس کا داخلہ فارم کنفرم کر دیا۔کئی دوسرے اساتذہ نے اعتراض بھی کیا کہ اس طرح دوسرے اسٹوڈنٹس بھی کہیں گے کہ ہم فلاں اسائنمنٹ کریں گے اور فلاں نہیں کریں گے۔ اس طرح کام کیسے چلے گا؟ انہوں نے کہاکہ ہر اسٹوڈنٹ میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ اپنی بات منوالے اور اس میں ا یسی خاصیت بھی موجود ہو کہ اسے آﺅٹ اسٹینڈنگ پوزیشن دے دی جائے۔ میں اس طالبہ کی تصاویر آڈیٹوریم کی بیرونی اور داخلی دیواروں پر اس وقت لگانے کی اجازت دوں گا جب بڑے پیمانے پر کسی نمائش کا اہتمام کیا جائے گا کیونکہ اس طالبہ نے ہمارے ادارے میں داخلے سے پہلے ہی ایسی مہارت سے صدیوں پرانی خطاطی اس انداز سے کی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ انگلیوں میں موجود قلم نے اس کی ایک ایک جنبش پر کاغذ پر خوبصورت الفاظ مرتسم کئے ہیں۔
    منتخب طلبا و طالبات کا گروپ بے حد پرجوش تھا، انہیں کہا گیا تھا کہ ڈیڑھ ماہ میں انہیں نصف درجن ممالک کا دورہ کرایا جائے گا۔انہیں چاہئے کہ فہرست میں موجود ممالک کی اہم جگہوں اور وہاں کی مشہور چیزوں اور لوگوں کی معلومات لکھیں اور وہاں پہنچ کر کتنے دنوں میں کتنا کام مکمل کر سکیں گے، اس کے بارے میں بھی آگاہ کریں۔ یہ بھی آپشن موجود تھا کہ وہاں سیاحت کے دوران تصاویر بنا لی جائیںپھرانہیں پینٹ کیا جائے اور اکثریت نے اس آپشن کو اپنے لئے بہترین سمجھاتھا۔ اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز کی کل تعداد 100ہوگئی تھی۔ ان میں وہ اساتذہ شامل تھے جنہیں سیاحتی پروگرام میں پہلے بھی بھیجا جا چکا تھا ۔ انتطامی امور میں انکی مشاورت بلا شبہ قابل قدر تھی۔
    وہ گھر میں اپنی امی جان کو تفصیل بتا رہی تھی کہ اس کا سلیکشن سیاحتی پروگرام میں ہو گیا ہے۔ اس لئے اب اسے زیادہ محنت سے کام کرنا ہوگا ۔قریب بیٹھی دونوں بہنوں نے خوشی کے اظہار میں تالیاں بجائیں۔ اس سے چھوٹی نے استفسار کیا کہ کیا میں بھی آپ کے ساتھ اتنی ساری جگہیں گھومنے جاسکتی ہوں؟ اس کی اس بات پر ایک لمحے کے لئے خاموشی چھا گئی اور اسے گلے لگاتے ہوئے سب سے چھوٹی بہن نے کہاکہ کیوں نہیں جاسکتیں ۔ آخر جب تمہیں سینری بنانے کا ہوم ورک ملتا ہے تو تم کتنے سارے رنگین کلرز کے استعمال سے کیسی خوبصورت تصاویر بناتی ہو۔ وہ منہ بسور کر کہنے لگی یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ شام کا منظر بناﺅ اور اس پر کوئی ایک چڑیا بھی نہ ہو۔ آخر شام میں تو ساری چڑیاں اپنے گھر واپس تو جائیں گی ناں، لیکن یہ اور بات ہے کہ ہمارے ابا جان کی طرح شام ہونے سے پہلے ہی اپنے دائمی گھر چلے جائیں۔ وہ اپنے والد کی بابت اچانک ایسی بات کہہ گئی کہ ماں نے اپنے آنسو روکتے ہوئے باورچی خانے کا رخ کیا۔
    وہ اندرونی کمرے میں اپنا بیگ رکھنے چلی گئی اور سب سے چھوٹی بہن نے اپنے سے ڈیڑھ سال بڑی بہن جس نے چند ماہ پہلے روڈ ایکسیڈنٹ میں اپنے والد کے اس دنیا سے چلے جانے کو ابھی تک ذہنی طور پر قبول نہیں کیا تھا اور کالج جانا بھی چھوڑ دیا تھا،وہ اپنے لئے دعا مانگتی تھی کہ مالک حقیقی !اس کے قلم کو ایسی قوت دے کہ دین کا حق ادا ہو سکے۔ دنیا میں لوگ ان مصوروں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے اس شعبے میں کار ہائے نمایاں انجام دئیے اور بعد میں آنے والوں نے انکے کام کو سراہا۔ ان کی تعریف اس انداز میں کی گئی کہ کئی صدی قبل سے ان کا نام مثال کے طور پر لیا جانے لگا۔ وہ کچھ ایسا کرنا چاہتی ہے کہ جو اس کائنات میں حقیقت پنہاں ہے، اسے لوگوں کے سامنے لاسکے اور اسکا شعور خود بھی حاصل کرے کہ آخر یہ کائنات ہمارے لئے کتنی سبق آموز ہے۔
    وہ سورہ¿ رعد پڑھتے ہو ے غور کر رہی تھی کہ اس میں پہلے کائنات کے بارے میں غور کرنے کو کہا گیا پھر انگور اور کھجور کا ذکر فرمایا گیا اور بتا دیا گیا کہ سب کو ایک جیسے پانی سے ہی سیراب کیا جاتا ہے اور ان میں سے کئی رنگوں اور ذائقے کے پھل پیدا ہوتے ہیں۔ کسی درخت کا ایک تنا ہوتا ہے اور کسی درخت میں سے دوسرا تنا بھی نکلتا ہے۔ یہ سب قدرت کی طرف سے ہوتا ہے۔“
    ان کا سفر شروع ہو چکا تھا وہ لوگ اپنے سامان میں زیادہ چیزیں ایسی لائے تھے کہ جن سے موسم کا بھرپور مقابلہ کیا جاسکے اور اپنے گھر میں روزانہ تصاویر بھیجنے کے لئے کپڑے بھی وافر تعداد میں ہوں۔ کچھ خورو نوش کی چیزیں بھی ساتھ تھیں اور لازمی قرار دی جانے والی کچھ پینٹنگ کی چیزیں بھی ان میں شامل تھیں۔ وہ اپنے کیمرے میں سفر کے دوران تصاویر لیا کرتی تھی لیکن جہاں جس جگہ پڑاﺅ ہوتا وہاں وہ اپنے ساتھ لائی ہوئی ایزل پر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا منظر روزانہ پینٹ کیا کرتی تھی۔جہاں جاتی اس کے ساتھ رنگین پنسل ہوتی اور وہ خاص زاویہ سے اس انداز میں منظر کشی کرتی کہ جو طالب علم اس سیاحتی پروگرام میں یہ سوچ کر آئے تھے کہ زیادہ سے زیادہ خوبصورت جگہوں کی سیر کی جائے گی، وہاں پر تصاویر اتاری جائیں گی پھر فیصلہ ہوگا کہ کن تصاویر کو پینٹ کرنا ہے ۔
    وہ دیکھتا تھا کہ اس کا کوئی ایک گھنٹہ بھی شاید سب کے ساتھ نہیں گزرتا تھا کہ جس وقت وہ اطراف کو اپنے انداز سے کاغذ پر نہ اتار رہی ہو ممکن ہے کہ کہیں کہیں صرف آﺅٹ لان ہی ڈرا کی ہو تاکہ بعد میں مختلف شیڈز میں مکمل کیا جاسکے۔واپسی پر طلباو طالبات نے اپنے کام کو پیش کیا اور وہ جانتا تھا کہ ہر وقت کی محنت اور جانفشانی سے کئے گئے کام کی وجہ سے وہ سب سے آگے رہے گی۔
     اس دن سب کی پینٹنگ باغ و بہار کی عکاسی کر رہی تھی۔ ہر ایک نے اپنے کامیاب دورہ سیاحت سے بہت کچھ سیکھا تھا اور وہاں کی مشہور زمانہ نمائش گیلریز کا دورہ بھی کیا تھا۔نئے زمانے اور پرانے فن پاروں کا موازنہ بھی کیا تھا لیکن اس کی پینٹنگز سب سے منفرد تھیں۔ اس نے جہاں پس منظر میں طلوع آفتاب تھا، وہیں پیش منظر میں ہر ملک کے کسی نہ کسی پھول ،پودے اور پھل کو پینٹ کیا گیا تھا۔پہاڑ کی چوٹی پر سفید برف جمی تھی۔ اس پس منظر میں مختلف رنگین پھولوں کے پودوں کو پیش منظر میں بنایا گیا تھا۔ایک ایک پھول، اس کی پتیوں اور انکے مختلف کٹاﺅ ایسے بنائے گئے تھے کہ ان پر حقیقت کا گمان ہورہا تھا پھر انگور کی بیل جس سے معلوم ہوتا کہ شاید یہ کسی الگ چیز کی بیل ہے۔اس نے کئی ملکوں میں جاکر اس بات کا پتا لگایا کہ کن ممالک میں کھجور کے درخت ہوتے ہیں اور وہاں کے لوگوں نے ضرور یہ جان لیا ہوگا کہ کھجور کے درخت کو مومن کے مشابہ قرار فرمایاگیا ہے ۔ اس درخت کا نہ کوئی پتہ سوکھتا ہے اور نہ ہی زمین پر گرتا ہے۔
     وہ اپنے والدین کو راضی کرنا چاہتا تھا کہ وہ اس کے گھر رشتہ لے کرجائیں جس نے ایک ایسے پراجیکٹ پر کام کیا کہ جس سے اس کے کام کو دیکھنے والے یہ جان پائیں کہ ہم جس آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر رہتے ہیں ان میں ہمارے لئے کتنے اسباق موجود ہیں پھر ہر ایک چیزکو آیات قرآنی سے سمجھانا کہ اس بارے میں کیا ذکر آیا ہے اور یہ سب کچھ ایسی خطاطی میں پیش کرنا کہ خود دیکھنے والابھی حیران رہ جائے کہ اس چھوٹی عمر میں اس طالبہ نے یقینا قدرتی صلاحیت کی بنا ءپر ہی یہ سب مکمل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
     وہ گھر والوں کی واپسی کا بیتابی سے انتطار کر رہا تھا جو اس کے لئہ بالآخر اس کا رشتہ لے جانے پر راضی ہو گئے تھے لیکن یہ کیا، وہ ان لوگوں کی خاموشی سے کوئی مثبت جواب نہ پارہا تھا ۔اس لئے پوچھنے لگا کہ آپ لوگوں کی ملاقات تو ہو گئی ہو گی ناں؟ اور یہ بات پوچھنی تھی کہ ایک بھونچال آگیا ۔سب نے سخت اعتراض کیا کہ کیا کبھی ایک مل اونر کا بیٹا ایک ایسے گھر میں رشتہ کرتا ہے جس کی معاشی حالت ایسی ہو کہ ایک وقت کا سوچنا پڑے۔ کوئی فیملی بزنس بیک گراﺅنڈ نہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ والد کے انتقال کے بعد ایک بہن تو دروازے پر بیٹھی والد صاحب کا انتظار کرتی ہے۔ وہ تو پرانے زمانے کا گھر ایسے کمپاﺅنڈ میں ہے کہ گیٹ پر ہر وقت چوکیدار موجودرہتا ہے۔ ان کے والدین نے فیصلہ سنا دیا۔ ہم تمہارے کہنے پر چلے گئے تھے کہ کچھ مناسب لوگ ہوئے تو خاندان کے حسب نسب پر ہی رشتہ دے دیں گے لیکن وہاں تو کوئی مرد کی صورت ہی نہیں تھی۔کوئی شہر میں جاننے والا بھی نہیں جو انکی فیملی کے بارے میں معلومات رکھتا ہو۔اس لئے آخری بات یہی ہے کہ اس ماہ تمہاری شادی طے کر دی جائے گی اور ایسا ہی ہوا ۔
    وہ بڑے مجمعے میں جانے سے کتراتی تھی کہ آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے، اپنے لوگوں تک محدود رہنا چاہئے لیکن اس کی والدہ نے اس کے لئے آنے والے رشتوں میں سے ایک کو اس کے لئے منتخب کر لیا جبکہ والدین بار بار یہ کہہ رہے تھے۔ آپ کے گھر کے سربراہ اب اس دنیا میں نہیں رہے زیادہ تر خاندان بیرون ملک جابسے لیکن ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم ایک ایسی شخصیت کو اپنی نسل نو کی تربیت کے لئے منتخب کریں جو دینی رجحان رکھتی ہو۔ دنیا کی چکاچوند سے متاثر نہ ہو۔ دنیا کو چند روزہ ہی سمجھے۔انہوںنے یہ بھی بتایا کہ کسی کام کے سلسلے میں وہ اس کے والد سے بھی ملے تھے ان کے مشترک دوست احباب بھی انکی طرح انکی ایمانداری کی تعریف کیا کرتے تھے ۔
    آج وہ شہر کے ایک بڑے صنعتکار کی بہو کی حیثیت سے اسٹیج پر موجود تھی۔ اس کا شریک حیات خوش و خرم اپنے دوستوں کو دور سے ہی ہیلو ہائے کر رہا تھا۔ وہ اپنی بہن بہنوئی کی آمد پر مسکرا دی ۔وہ اٹھ کربرادر نسبتی سے ملا اور کہا کہ ایسے ڈاکٹر بھی کم ہی ملتے ہیں جو اپنا رشتہ اپنے اسپتال میں ہی تلاش کر لیتے ہیں اور والدہ کو چپکے سے بتا دیتے ہیں کہ جس بیماری کی وجہ سے وہ یہاں تشریف لائی ہیں وہ سراسر وہم ہے ۔ اس کی والدہ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کے ہمراہ جب وہاں پہنچیں تو اس نے بہت کوشش کی کہ گاڑیوں کے رش میں اپنی گاڑی پارک کر سکے لیکن مشکل ہو رہی تھی۔ اس کی مشکل ایسے حل ہوئی کہ انکے ساتھ آنے والے مہمان نے اپنی خدمات پیش کردیں کہ اس کی والدہ نے اس موہنی صورت کو پریشان ہوتے دیکھ کر اپنے صاحب زادے سے کہا تھا کہ اس کی گاڑی وہ درست طریقے سے پارک کر دے پھر ان کی یہ ملاقات رشتہ داری میں بدلنے کا سبب بن گئی۔
    وہاں لانگ روم میں سب گھر والے ٹیلی وژن کے سامنے ہی براجمان تھے کہ کسی مشہور آرٹسٹ کی شادی کی تصاویر کے ہمراہ خبر چلی کہ فلاں مشہور صنعت کار کے صاحبزادے کی شادی بخیرو خوبی انجام پاگئی جس میں کی سیاسی، سماجی اور تجارت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی ۔اس بارے میں بھی بتایا گیا کہ ان کی بہو ایک ایسی مصورہ کے طور پر جانی جاتی ہیں جن کے فن پاروں کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ غیر ملکی یونیورسٹی اب انہیں گیسٹ آرٹسٹ کے طور پر مدعو کرنے کی خواہش مند ہے تاکہ ایک نیا ا سلوب متعارف کرایا جاسکے ۔
     وہ اپنے بیٹے کا دھواں ہوتا چہرہ زیادہ دیر نہ دیکھ پائے اور بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گئے۔
 

شیئر: