سی بی آئی کی ساکھ کا سوال
کولکتہ پولیس کمشنر راجیوکمار کو گرفتار کرنے گئی سی بی آئی ٹیم کی گرفتاری کے واقعہ نے بہت سے پریشان کن سوالوں کو جنم دیا ہے۔ ان میں کچھ سوالات تو شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ میں سی بی آئی جانچ سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ سوال سی بی آئی کی اپنی ساکھ سے متعلق ہیں۔ یہ وہی سی بی آئی ہے جو کسی زمانے میں ملک کی سب سے رعب دار تحقیقاتی ایجنسی تصور کی جاتی تھی اور بدعنوان لوگوں کو ڈرانے کے لئے سی بی آئی کا نام لینا ہی کافی ہوتا تھا لیکن اس ایجنسی میں جاری خانہ جنگی اور اس کے سیاسی استعمال کی خبروں نے اس کی ساکھ کو ملیامیٹ کردیا ہے۔ پچھلے دنوں ایجنسی کے بڑے افسران نے ایک دوسرے پر رشوت خوری اور بدعنوانی کے جو الزامات لگائے تھے ،وہ انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک تھے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ملک کے بدعنوان سیاست دانوں ، نوکرشاہوں اور اسمگلروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والی یہ ایجنسی خود ایک روز کٹہرے میں کھڑی ہوجائے گی اور اس کے افسران ہی ایک دوسرے کو رشوت خوری کے الزا م میں گرفتار کریں گے۔ کولکتہ کے پولیس کمشنر راجیو کمار سے پوچھ گچھ کرنے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر گئی سی بی آئی کی 40رکنی ٹیم کو کولکتہ پولیس نے گرفتار کرلیا۔ یہ ٹیم شاردا چٹ فنڈ گھوٹالے میں پولیس کمشنر کے کردار پر اٹھنے والے بعض سوالات کا جواب ڈھونڈنے گئی تھی لیکن کہایہ گیا کہ سی بی آئی ٹیم دراصل پولیس کمشنر کو گرفتار کرنا چاہتی تھی لہٰذا پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے خود اس ٹیم کے اراکین کو ہی حراست میں لے لیا۔ اس کارروائی پر پورے ملک میں ہلچل مچ گئی اور معاملہ اتنا آگے بڑھا کہ اس کی آنچ ملک کے وفاقی ڈھانچے تک جا پہنچی۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی سی بی آئی کارروائی کے خلاف دھرنے پر بیٹھ گئیں اور ان سے ہمدردی کا اظہار کرنے کئی اپوزیشن لیڈر بھی کولکتہ پہنچے۔شاردا چٹ فنڈ گھوٹالے کی تحقیقات کا کام اب سے 4سال پہلے سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو سونپا تھا لیکن نہ جانے کیوں وہ اب تک اس معاملے میں کچھوے کی چال چل رہی تھی۔ اچانک عام انتخابات سے قبل سی بی آئی نے اس معاملے میں جو سرگرمی دکھائی ہے، اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کارروائی دراصل ممتابنرجی کو خوف زدہ کرنے کے لئے کی گئی ہے چونکہ انہوں نے اپنی ریاست میں بی جے پی کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں۔سی بی آئی ان دنوں مرکزی حکومت کے ایک ایسے آلے کے طورپر کام کررہی ہے، جو سب سے زیادہ حکومت کے سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے کام آرہا ہے۔ ممتابنرجی سے حکمراں بی جے پی کی ناراضی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ ان دنوں اپوزیشن اتحاد کا محور بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ماہ کولکتہ میں اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرکے جو بے مثال ریلی کی تھی، وہ بی جے پی کے لئے سب سے بڑا دردسر بنی ہوئی ہے۔ اس ریلی میں جہاں ایک طرف تمام اپوزیشن لیڈروں نے شرکت کی تھی تو وہیں انہیں دیکھنے کے لئے عوامی سیلاب امڈ آیا تھا۔ بی جے پی کی کوشش یہ ہے کہ وہ اترپردیش میں ہونے والے ممکنہ سیاسی نقصان کا ازالہ مغربی بنگال سے کرے اور وہاں ممتابنرجی کے مضبوط ووٹ بینک میں فرقہ واریت کی بنیاد پر دراڑیں ڈالی جائیں۔ اسی لئے وزیراعظم نریندرمودی سے لے کر بی جے پی صدر امت شاہ اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تک سبھی نے مغربی بنگال کو اپنی ریشہ دوانیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے۔
سی بی آئی کے بارے میں سپریم کورٹ کاوہ تبصرہ تو آپ کو یادہی ہوگاکہ جس میں اسے ایک ایسے طوطے سے تشبیہ دی گئی تھی جو صرف اپنے مالک کے اشارے پر حرکت کرتا ہے۔ اس میں غلط بھی کیا ہے کیونکہ سی بی آئی کا استعمال مرکزی حکومت نے اپنے سیاسی مفادات کو بروئے کار لانے کے لئے جس انداز میں کیا ہے، وہ انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ یوں تو سی بی آئی کے سیاسی استعمال کا الزام پچھلی حکومتوں پر بھی عائد کیاجاتا رہا ہے لیکن موجودہ حکومت نے اس معاملے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں اس ایجنسی کی سب سے زیادہ مٹی پلید ہوئی ہے اور اس کا وقار مسلسل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ سی بی آئی کی جانبدارانہ کارروائیوں کے سبب ہی کئی ریاستوں نے اپنے یہاں اس کی حرکت وعمل پر روک لگا رکھی ہے حالانکہ ایسا کرنا وفاقی ڈھانچے کے خلاف ہے کیونکہ ہر مرکزی ایجنسی کا دائرۂ کار ملک گیر سطح پر پھیلا ہوا ہوتا ہے اور وہ حسب ضرورت ملک میں کہیں بھی کارروائی انجام دے سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سی بی آئی کو صوبائی سطح پر کارروائی کرنے سے پہلے متعلقہ صوبائی حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے۔ کولکتہ پولیس کمشنر کیخلاف سی بی آئی نے جو کارروائی انجام دی، وہ صوبائی حکومت کی اجازت اور منشاء کے بغیر کی گئی تھی۔ کلکتہ پولیس کمشنر راجیوکمار پر الزام ہے کہ وہ شاردا گھوٹالے میں کچھ ثبوتوں کو تلف کرنے کا کام کررہے ہیں۔ حالیہ تنازع کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو راجیوکمار سے پوچھ گچھ کی اجازت تو دے دی لیکن ان کی گرفتاری پر روک لگادی گئی ہے۔ کہاجارہا ہے کہ سی بی آئی کولکتہ پولیس کمشنر سے کسی لال ڈائری کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہے جس میں ان ترنمول لیڈروں کے نام درج ہیں جنہوں نے شاردا چٹ فنڈ گھوٹالے میں بڑی رقومات ہضم کی ہیں۔ ان لیڈروں میں ترنمول کانگریس کے سابق لیڈر مکل رائے کا نام بھی بتایا جاتا ہے جنہوں نے پچھلے دنوں بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے مکل رائے بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں تب سے سی بی آئی نے ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی ہے جبکہ یہ وہی سی بی آئی ہے جس نے شاردا چٹ فنڈ گھوٹالے میں مکل رائے کوباقاعدہ گرفتار کیاتھا۔