پاکستانی قومی ترانے کے خالق ”ابوالاثر حفیظ جالندھری“
جمعرات 21 فروری 2019 3:00
زینت ملک۔جدہ
ہمارے پاکستان کا دلکش قومی ترانہ جو پروقار و ولولہ انگیز ہے اس کے خالق حفیظ جالندھری ہیں۔ آزاد قوموں کی شناخت اس کا قومی پرچم اور قومی ترانہ ہوتی ہے۔قائداعظم چاہتے تھے کہ قومی ترانہ جلد تیار ہوجائے لیکن انکی یہ خواہش ان کی حیات میں ممکن نہ ہوسکی پھر قائد ملت لیاقت علی خان کے دور میں1949ءمیں قومی ترانہ کمیٹی بنائی گئی۔ اس کا پہلا اجلاس سردار عبدالرب نشتر کی قیام گاہ پرمنعقد کیا گیا۔ تمام شعرائے کرام اور موسیقاروںکو ترانہ لکھنے اور اسکی دھن ترتیب دینے کی دعوت دی گئی۔
کمیٹی کا دوسرا اجلاس4جولائی 1949ءکو ہوا۔ کمیٹی کو سیکڑوں قومی ترانے موصول ہوئے مگر کمیٹی نے کسی کو منظور نہیں کیا ۔آخراحمد غلام علی چھاگلہ نے قومی ترانے کی خوبصورت دھن مرتب کر دی ۔یہ دھن اگست 1949ءمیں منظور ہوئی۔ اسی دوران قائد ملت کو شہید کر دیاگیا چنانچہ ترانہ لکھنے کا کام مکمل نہ ہوسکا آخر دھن کے مطابق ” بول“لکھنے کاکام شاعر حفیظ جالندھری کو سونپا گیا ۔ان کا لکھا ہوا ترانہ7اگست 1954ءکومنظور ہو گیا۔ یہ تین بندوں پر مشتمل ہے :
پاک سر زمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
تو نشان عزم عالی شان
ارض پاکستان
مرکز یقین شاد باد
٭٭٭
پاک سر زمین کا نظام
قوت اخوت عوام
قوم ملک سلطنت
پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزل مراد
٭٭٭
پرچم ستارہ و ہلال
رہبر ترقی و کمال
ترجمان ماضی، شان حال
جان استقبال
سایہ¿ خدائے ذوالجلال
پاکستان کے قومی ترانے کا دورانیہ ایک منٹ 20 سیکنڈ ہے ۔ابو الاثر حفیظ جالندھری نے قومی ترانہ لکھ کر اپنے والد کا سر فخر سے بلند کیا۔حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میںشمس الدین کے ہاں 14 جنوری 1900ءکو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ءمیں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پورا کیا۔ انہیں شعری اصلاح کے لئے نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی مدد حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنائی۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر جیسے مناصب جلیلہ پر بھی فائز رہے۔ابو الاثر حفیظ جالندھری کوتمغہ حُسن کارکردگی اور ہلال امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیابالآخراردو شاعری کا یہ ”خورشیدِپاکستان“ 82برس کی عمر میں21دسمبر 1982ءکوہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔
حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ” شاہنامہ اسلام“ ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں” فردوسی “کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لئے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پوری اترتی ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کئے۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔ ان کی غزلیں بے حد مقبول ہوئیںجن میں ایک غزل ملکہ پکھراج نے ایسی گائی کہ زبان زد عام ہو گئی جس کے بول ہیں ”ابھی تو میں جوان ہوں“ ۔
آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ان کے لکھے ہوئے اسی مقبول گیت کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیونکہ اس میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ،وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
کئی دہائیاں گزرنے کے ساتھ یہ روایت لوگوں نے بھلادی کہ تمام تعلیمی ادارے اپنے قومی دنوںکی تقریبات منعقد کرکے اس دن کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں جو بچپن ہی سے بچوں کے دلوں میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور ان کے اذہان میں اس دن کی اہمیت کا احساس موجزن رہتا ہے ۔آج کئی سالوں کے بعد اس جانب توجہ دی گئی ہے ۔ توقع ہے کہ اب وہی سلسلہ شروع کیا جائے گا کہ تعطیل ہوگی لیکن قومی تہوار کے موقع پر بھرپور تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا اور بلاشبہ یہ حکومت کی طرف سے ایک مستحسن اقدام ہے۔
ہر بچے کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے ملک کی تاریخ جانے اور اسے معلوم ہو کہ ملک کی آزادی کسی بھی قوم کے لئے کتنی ضروری ہوتی ہے اور کوئی بھی قوم دنیا میں اسی وقت سرخرو ہوتی ہے جن اس کے نوجوان اپنے ملک کی خاطر اپنی خدمات میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں ۔ضروری ہے کہ ہم اپنی نسل نو کو آزادی کی اہمیت سے آگاہ کریں کیونکہ :
یقین محکم ،عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مَردوں کی شمشیریں
قومی وقار میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری ہر ہم وطن پر لازم ہے۔ دنیا میں جہاں بھی رہیں اپنے وطن کی مٹی کا قرض ادا کریں۔