Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یورپی کمشنری کی فہرست اور سعودی عرب کیساتھ ناانصافی

سلمان الدوسری ۔ الشرق الاوسط
یورپی کمشنری نے منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ میں انتہائی پرخطر ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کا نام شامل کرکے انتہائی افسوسناک حرکت کی۔ یورپی کمشنری نے ایسے ممالک کے ناموں کی فہرست تجویز کی ہے جو دہشتگردی کی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے انتہائی پر خطر ہے۔افسوس صرف اسلئے نہیں کہ یورپی کمشنری نے مذکورہ فہرست میں سعودی عرب کے نام کا اعلان مملکت کا ایک بار بھی دورہ کئے بغیر کردیا۔ افسوس اس لئے بھی نہیں کہ سعودی عرب کو اپنا مالیاتی نظام جدید تر کرنے کے حوالے سے اقدامات کے نفاذ کی بابت اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ افسوس اسلئے کیونکہ یورپی کمشنری نے اس سلسلے میں ایف اے ٹی ایف اے مالیاتی ورکنگ گروپ کی رپورٹوں پرانحصار کیا ہے اور اس گروپ نے اکتوبر 2018ءکے دوران ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ سعودی عرب ایف اے ٹی ایف اے کی دائمی رکنیت کے جملہ تقاضے پورے کرنے جارہا ہے او رمملکت کامالیاتی نظام مذکورہ گروپ کے مقرر کردہ 40پیمانوں میں سے 36سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہے۔مذکورہ گروپ نے جو معیار مقرر کررکھے ہیں ان میں منی لانڈرنگ اور دہشگردی کی فنڈنگ کے انسداد کے ضابطے بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنی واضح پیشرفت کو ، کیونکر نظر انداز کردیاگیا۔اس سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ یورپی کمشنری نے مذکورہ فہرست میں سعودی عرب کا نام شامل کرکے اصول پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے ایسا کرکے سعودی عرب کے ساتھ ناانصافی کی۔
سعودی عرب تنہا ملک نہیں جسے اپنے موقف کی وضاحت اور اصلاح حال کا موقع نہیں دیا گیا۔ امریکہ جس کا مالیاتی نظام بین الاقوامی اقتصاد کو منظم کرنے والے عرش کے قائم مقام ہیں،اسے بھی اس کا موقع نہیں دیا گیا۔اس کے ماتحت 4علاقوں کو مذکورہ فہرست میں شامل کیا گیا جس پر امریکی وزارت خزانہ نے یورپی کمشنری کی فہرست کو مسترد کردیا اور یہ فیصلہ سنانے پر بھی آمادہ کرلیا کہ یورپی کمشنری نے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی صحیح طریقے سے نہیں کی۔یورپی کمشنری نے اصلاح حال کا بھی وقت نہیںدیا۔ اپنے موقف کا جواز پیش کرنے کا بھی موقع نہیں دیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل گتھی زیر استعمال پیمانوں میں نہیں بلکہ عملدرآمد کے طریقہ کار میں ہے۔یہاں یہ بات بھی پیش نظررکھنا ہوگی کہ امریکہ میں جو بین الاقوامی مالیاتی معیار نافذ العمل ہے ،وہ دنیا کے سب سے سخت اور ٹھوس ہیں۔ اس کے باوجود دہشتگردی سے متعلق 2018ءکی بابت امریکی دفتر خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں انسداد دہشتگردی قانون کی بابت امریکہ کے ساتھ تعاون اور یکجہتی پیدا کرنے کے حوالے سے سعودی عرب کی تعریف کی گئی ہے۔ خاص طور پر یہ بات مانی گئی ہے کہ سعودی عرب نومبر 2017ءکے دوران دہشتگردی اور اسکی فنڈنگ کے انسداد کے سلسلے میں نیا قانون نافذ کررہا ہے اور یہ مملکت کے پرانے قوانین کی تجدید کی علامت ہے۔
یورپی کمشنری نے جن ممالک کا نام مذکورہ فہرست میں شامل کرنے کیلئے تجویز کیا ہے اس کے اعلان پر خو د یورپی یونین میں شامل متعدد ممالک نے نکتہ چینی کی ہے۔ یورپی کمشنری نے اس بات کو بھی نظر انداز کردیا کہ سعودی عرب نے منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ کے انسداد کے قانون میں ٹھوس تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ایف ٹی اے ایف کے مالیاتی ضوابط کے عین مطابق ہیں۔ چونکہ سعودی عرب نے حال ہی میں اپنے قوانین میں ترامیم کی ہیں لہذا فوری طور پر ان کے اثرات کا ظاہر نہ ہونا قابل فہم ہے۔ مالیاتی نظام کو خامیوں کے تدارک کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یورپی کمشنری نے جو اعلان کیا وہ قابل اعتراض ہے تاہم یہ بات بھی ماننا پڑتی ہے کہ اس میں تجارتی تعلقات پر کسی طرح کی پابندی کا ذکر نہیں۔ اس سے ترقیاتی امداد جاری رکھنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی البتہ اس اعلان نے بینکوں اور اداروں کو ترسیل زر کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اپنانے کا پابند بنادیا ہے۔
یورپی کمشنری اور اس کی تکنیکی ٹیموں کے سامنے سعودی عرب کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ جب چاہیں منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ کے انسداد کے حوالے سے سعودی عرب میں رائج قوانین و ضوابط اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: