Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا حالیہ کریک ڈاون اسے بلیک لسٹ سے بچا سکتا ہے؟

وسیم عباسی اسلام آباد
پاکستان میں ان دنوں کالعدم جماعتوں کے خلاف ملک بھر میں جاری کریک ڈاون کے باوجود حکام کے مطابق اس امر کا خدشہ ابھی بھی موجود ہے کہ اس سال پاکستان کا نام منی لانڈرنگ کی روک تھام کے بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے یا گرے لسٹ سے نام نہ نکالا جائے۔
اس خدشے کا اظہار پاکستان کی طرف سے ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف کے ساتھ مذاکرات کرنے والے وفد کےانچارج اور فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل منصور حسن صدیقی نے کیا۔اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے خاتمے اور دہشت گردی کے لئے فراہم کی جانے والی رقم کی روک تھام کے لئے جو 19 اہداف پاکستان کو مئی تک حاصل کرنے ہیں ان کے لئے وقت بہت کم ہے۔ان کاکہنا تھا کہ ایف آئی اے، نیب اور نیکٹا کو اس سلسلے میں کافی اقدامات کرنے ہیں جبکہ سٹیٹ بینک اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینچ کمیشن (ایس ای سی پی) نے بینکوں کی مانیٹرنگ کرنی ہے تاکہ غیر قانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی روکی جا سکے۔
پاکستان کے لئے چیلنجز کیا ہیں؟
منصور صدیقی کے مطابق سب سے بڑا چیلنج وقت کی قلت ہے جس میں پاکستان کو اگلے دو ڈھائی ماہ میں2محازوں پر کام کرنا ہے۔ انہوںنے کہا کہ پہلا کام یہ ہے کہ حکومت نے نہ صرف منی لانڈرنگ روکنے کے لئے موثر اقدامات کرنے ہیں بلکہ اس غیر قانونی کام میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کر کے ا نہیں سزائیں بھی دلانی ہیں۔ اس مقصد کے لئے ریگولیٹرز جن میں سٹیٹ بینک اور ایس۔ ای۔ سی۔ پی شامل ہیں کو بینکوں کے نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنا ہے تاکہ پیسے کی غیر قانونی ترسیل کے تمامراستے بند ہو جائیں۔ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہو چکی ہے۔منصور صدیقی کے مطابق بینکوں نے ٹرانسیکشن مانیٹرنگ کو بہتر بنا کر رقوم کی مشکوک منتقلی کی رپورٹس مرتب کرنا شروع کر دی ہیں۔ تاہم اب بھی کافی کام باقی ہے۔ دوسرا کام یہ ہے کہ دہشت گردی کے لئے رقوم کی فراہمی کے حوالے سے کالعدم تنظیموں کے ڈھانچوں کو ختم کر کے ان کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کا نظم و نسق سنبھالنا ہے۔
„حکومت کو ان اداروں کو چلانے کے لئے بجٹ فراہم کرکے اس کا ثبوت بھی فراہم کرنا ہوگا تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ یہ مکمل طور پر سرکاری خرچ پر چل رہے ہیں۔‘
 یاد رہے کہ اس سال کے آغاز میں اپنے اجلاس کے بعد ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو جیش محمد اور فلاح انسانیت فاونڈیشن سمیت اقوام متحدہ کی طرف سے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا کہا تھا۔
منصور صدیقی کے مطابق عدالتوں اور پراسیکیوشن کے نظام کو بہتر کرنا بھی ایک ہدف ہے تاکہ منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو جلد سزا دلوائی جا سکے۔" ایف آئی اے کو حوالہ ہنڈی پر ایکشن لینا ہے۔ پراسیکیوشن کرنی ہے یہ مشکل کام ہے کیا اتنے وقت میں ہو سکتا ہے؟" 
ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں معاملات پر قومی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطے بہتر کرنا بھی ایک اہم ہدف ہے جس میں کچھ کامیابی ہوئی ہے مگر مزید کام کرنا ہوگا۔ ابھی سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے نے کام کرنا ہے۔ پورے ملک میں اور تمام مسلح نیٹ ورکس کے خلاف ایکشن کرنا ہے۔ اس کے بعد ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنی اور سزائیں دلوانی ہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لئے ہر طرح کی عدالتیں تو موجود ہیں مگر ان کی استعداد کار مزید بہتر کرنی ہے- عدالتوں اور پراسیکوشن کی صلاحیت کے حوالے سے نیکٹا کام کر رہا ہے۔
بلیک لسٹ کا خطرہ
منصور صدیقی کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے ممبر کے طور پر ہند بھرپور کوشش کر رہا تھا کہ جنوری میں ہی پاکستان کو بلیک لسٹ کرا دے تاہم دوسرے ممالک کی طرف سے مزاحمت کے باعث اسے کامیابی نہ ملی۔ ان کے خیال میں ہند اب دوبارہ یہ بھرپور کوشش کرے گا کہ لابنگ کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرے۔تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف۔ سیاسی اثر میں نہ ہو اور پاکستان کو کچھ اور وقت دینے کا فیصلہ کیا گیا تو بہتر نتائج بھی آ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے پاکستان بلیک لسٹ سے بچ جائے اور وائٹ لسٹ میں بھی آ جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ہو سکتا ہے کہ مئی میں پاکستان کے کچھ اقدامات کو ایف اے ٹی ایف مان لے اور باقی کچھ کے حوالے سے ستمبر تک کا وقت دے دے۔
ایف اے ٹی ایف اب جون میں کولمبو میں پاکستان کی طرف سے اقدامات کا جائزہ لے گا۔ توقع ہے کہ پاکستان کی قسمت کے حوالے سے جون یا ستمبر میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ بین الاقوامی ادارے نے پاکستان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لئے رقوم کی فراہمی کے حوالے سے نظام میں "تزویراتی خامیوں" کو بنیاد بنا کر گذشتہ سال جون میں ملک کا نام "گرے لسٹ" میں ڈالا گیا تھا۔
گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کے نقصانات
  ماہرین کے مطابق پاکستان اگر بلیک لسٹ میں چلا گیا تو اس کے ملک کی معاشی صورتحال پر انتہائی منفی اثرات ہوں گے۔معاشی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق اس اقدام کے بعد بیرونی سرمایہ کاری اور باہر سے رقوم کی ترسیل کو شدید دھچکا لگے گا ۔ عالمی سطح پر پاکستان کو ترسیلات کے حوالے سے مشکوک ملک کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔ 
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو ایک سال کے لئے مزید گرے لسٹ میں بھی رکھا جا سکتا ہے جس کے معیشت پر اثرات اچھے نہیں ہوں گے۔ اس ماہ کے آخر میں ایف اے ٹی ایف کا ایک علاقائی وفد پاکستان آ رہا ہے جو پاکستان کی پچھلے سال جمع کرائی گئی رپورٹ پر مقامی حکام سے بات چیت کرے گا۔ 
 

شیئر: