سعودی عرب ....... علم بلند کئے ہوئے ہے
ڈاکٹر شمسا ن بن عبداللہ المناعی۔ الشرق الاوسط
ایک دانشور کا کہناہے کہ” جو لوگ کام کی قدرت رکھتے ہیں وہ کام کرتے ہیں اور جو لوگ کام کی استعداد نہیں رکھتے وہ دیکھا کرتے ہیں“۔ میرے خیال سے یہ کہاوت خود کو ”ترقی پسند عرب “ کہنے والوں پر بہت اچھی طرح سے صادق آتی ہے۔ ان میں ترقی پسند سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں اور ترقی پسند شخصیات بھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس گرج چمک والے نعروں کا ناپیدا کنار خزانہ ہے۔ جب بھی ضرورت پیش آتی ہے یہ اس میں غوطہ لگا کر کچھ نعرے نکال لاتے ہیں۔ ان دنوں وہ فلسطین پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ عرب رائے عامہ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ امت کا غم انہیں نڈھال کئے ہوئے ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس میں بھی کوئی قباحت نظرنہیں آتی کہ وہ عربوں کے بدترین دشمنوں کے پکے سچے دوست بنے رہیں۔ سرفہرست ایران کے حکمراں ہیں۔
حال ہی میں سعودی عرب کے خلاف تشہیری مہم نے ہمیں یہی پیغام دیا ہے۔ ادھر اور ادھر بعض ذرائع ابلاغ نے مملکت کے خلاف تنقید و تنقیص کے تیر برسائے۔ یہ کارنامہ انجام دینے والوں کو ایران نے محنتانے ادا کئے۔ ناقدین نے الزام لگایا کہ اسرائیل وارسا کانفرنس میں شرکت کرنے والے بعض عرب ممالک کیساتھ تعلقات معمول پر لانے جارہا ہے۔ یہ بات قارئین کو بتاتا چلوں کہ مذکورہ کانفرنس میں اسرائیل سمیت62ممالک شریک ہوئے تھے۔ اسرائیل کیساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کاالزام انتہائی پھسپھسا ہے۔ ترقی پسند حضرات اسکا سہارا ایسے عالم میں لیتے ہیں جب انکے پٹارے میں کوئی اور الزام باقی نہیں رہتا۔ حالانکہ انہیں پتہ ہے کہ اسرائیل کیساتھ کونسا ملک تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔
دوسر ی جانب یہ ترقی پسند عرب اس بات کو یکسر نظرانداز کررہے ہیں کہ اسرائیل کیساتھ کونسا ملک تعلقات بنائے ہوئے ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ قطر ہے جو اسرائیلیوں اور اپنی اتحادی تحریک حماس کے تعاون سے غزہ کے فلسطینیوں کی تنخواہ کے نام پر بھاری رقم اسرائیلیوں پر لٹا رہا ہے۔قطر ایک طرف اسرائیل اور دوسری جانب ایران کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہوئے ہے۔
اسرائیل اپنے خلاف ایران کے بیانات کو اس وجہ سے نظر انداز کرتا رہتا ہے کیونکہ اسرائیل چاہتا ہے کہ عرب اس کے بجائے ثانوی قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔ ایران خطے کی کشمکشوں کا لاوا بھڑکاتا رہتا ہے۔ فرقہ وارانہ نعرے لگا کر دلوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کی وارداتیں کرتا رہتا ہے۔ اسکی وجہ سے اسرائیل عرب کشمکش منظر سے اوجھل ہوجاتی ہے اور عرب اپنے مرکزی قضیے فلسطین کے بجائے دیگر مسائل میں الجھ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے عربوں کا موقف واضح ہے ۔ عرب مسئلہ فلسطین کی بابت وہ سعودی فارمولے پر متفق ہیں جسے مارچ 2002ءکے دوران بیروت عرب سربراہ کانفرنس نے اپنا لیا تھا۔ شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے فلسطینی اسرائیلی کشمکش ختم کرانے کیلئے امن فارمولا پیش کرکے تجویز کیا تھا کہ 67کی سرحدوں کے دائرے میں خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہو۔ مشرقی القدس اسکا دارالحکومت ہو۔ اسرائیل مقبوضہ گولان سے انخلاءکرے اور فلسطینی پناہ گزینوں کا مبنی برانصاف حل طے پائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ سعودی عرب مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنا روشن تاریخی کردار برقرار رکھے ہوئے ہے۔ سعودی عرب کا یہ کردار زریں حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ مسئلہ فلسطین روز او ل سے سعودی فرمانرواﺅں کا اولیں مسئلہ رہا ہے۔ انہوں نے ہر سطح پر اور ہر مرحلے میں مسئلہ فلسطین کی گتھیاں سلجھانے کیلئے کاوشیں کیں۔ 1935ءمیں لندن کانفرنس سے لیکر خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے عہد تک اس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ سعودی عرب مسئلہ فلسطین سمیت کسی بھی عرب مسئلے سے تجارت کا قائل نہیں۔ سعودی عرب خاموشی سے اپنا کام کررہا ہے۔ یہی اسکی خارجہ پالیسی کی کلید ہے۔ عرب مسائل کے حل میں سعودی عرب کا حصہ بہت بڑا ہے۔ سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین سمیت بہت سارے عرب مسائل حل کرانے میں کلیدی کردارادا کیا۔ مملکت ہی نے طائف کانفرنس طلب کرکے لبنان کا مسئلہ حل کرایاتھا۔ سعودی عرب ہی نے اریٹیریا اور ایتھوپیا کے درمیان مصالحت کرائی۔ سعودی عرب ہی یمن کو حوثی باغیو ں کے شر سے نجات دلانے کیلئے عرب اتحاد کی قیادت کررہا ہے اور سعودی عرب ہی اسراٹیجک علاقے میں عربو ںکے مفادات کی خاطر ایران کی یلغار کو روکنے میں لگا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭