ملکی سیاسی بساط پر اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مہرے آمنے سامنے ہیں، سیاسی محاذ آرائی جاری ہے
تنویر انجم
پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین اختلافات اور سیاسی جنگ مسلسل جاری ہے۔ اس دوران پاک ہند کشیدگی کے موقع پر فوج اور ملکی دفاع کے لیے حزب اختلاف اور حکومت ایک پیج پر دکھائی دیئے تاہم معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی دونوں جانب سے ایک بار پھر الفاظ کی گولہ باری شروع کردی گئی ہے۔ ایک جانب مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف جیل میں قید ہیں جس کی وجہ سے پوری پارٹی دیوار سے لگی دکھائی دیتی ہے تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ساتھ تحریک انصاف کا تناؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ن لیگ کی قیادت سمیت سینئر رہنماؤں کی جانب سے نپے تلے اور سوچے سمجھے بیانات دیے جا رہے ہیں، جسے ردعمل تو نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے کافی ہے۔ اس وقت سابق حکمراں جماعت کی اولین ترجیح اپنے قائد کی جیل سے رہائی اور علاج کیلئے ان کی بیرون ملک روانگی ہے، جس کیلئے عدالتوں میں اپیلیں بھی جاری ہیں اور غالباً پس پردہ سیاسی کوششیں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اس طرف سے انتہائی مطمئن دکھائی دیتی ہے اور ن لیگ کے گڑھ پنجاب میں کھل کر سیاسی میچ کھیل رہی ہے جس میں بلامقابلہ کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت کسی واضح حریف یا مخالفت نہ ہونے کی وجہ سے اطمینان کے ساتھ حکمرانی کررہی ہے۔ دیکھا جائے تو سندھ میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی وفاقی حکومت کو کسی حد تک مزاحمت کا سامنا ہے تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے ماضی کی طرح کھل کر سیاسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا، جس کی وجہ نیب کے مقدمات اور گزشتہ 2 مکمل حکومتی ادوار کے بعد حالیہ تیسرا دور حکومت پیپلز پارٹی کے پاس ہونا ہے کہ ایک دہائی سے زیادہ مسلسل حکمرانی کے باوجود صوبے کے گاؤں، دیہات، پسماندہ علاقوں سمیت بڑے شہر بھی ٹوٹے پھوٹے اور کچرے سے بھرے دکھائی دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو صورت حال کا بخوبی احساس ہے، اس لیے پھونک پھونک کر چلنے کی پالیسی کے تحت حکمرانوں اور حکمراں جماعت کی قیادت محض بیانات ہی پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔ وفاق اور صوبے کے مابین اختلافات میں اچانک شدت گزشتہ دنوں اُس وقت پیدا ہوئی جب قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد سے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو گرفتار کیا اور عدالت میں پیش کرکے ان کا ریمانڈ لیا۔ گزشتہ ماہ ہونے والی اس کارروائی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ سراج درانی پر کرپشن، آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور سندھ اسمبلی کی نئی عمارت کی تعمیر میں گھپلوں سمیت دیگر الزامات عائد ہیں، جن کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان ابھی نیب، ایف آئی اے، مقدمات، گرفتاریوں اور الزامات کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے نیشنل ایکشن پلان، کالعدم تنظیموں کو قومی تحویل میں لیے جانے اور ملک میں جاری معاشی بحران پر شدید تنقید کر ڈالی جس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انہیں اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جواب دیا ۔
معاملے کی دھول ابھی ہوا میں تھی کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سندھ کے پسماندہ علاقے تھرپارکر آنے کا اعلان کردیا گیا، جہاں انہوں نے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم نے بلاول بھٹو زرداری اور سندھ حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ بلاول نے اسمبلی میں انگریزی میں تقریر کر ڈالی۔ انہیں پتا ہی نہیں کہ پاکستان میں کم لوگ انگریزی جانتے ہیں اور جو انگریزی بولی وہ اسمبلی میں بھی زیادہ تر لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ بلاول بھٹو مجھے یوٹرن لینے کے طعنے دیتا ہے،اگر بلاول نے جدوجہد کی ہوتی تو اُسے پتا ہوتا کہ لیڈر بڑے مقاصد کیلئے یوٹرن لیتے ہیں، یہ لیڈرشپ کا خاص کمال ہے۔اس موقع پر وزیر اعظم نے تھرپارکر کے ایک لاکھ 12ہزار گھرانوں کو ہیلتھ کارڈ دینے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے موبائل اسپتال اور ایمبولینسیں فراہم کرنے اور 100 آر او پلانٹس لگانے کا اعلان بھی کیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سندھ میں 10 سال میں 5 ہزار3 سو ارب روپے خرچ ہوئے۔ یہ رقم کہاں گئی سندھ کے لوگ بہتر جانتے ہیں۔
وزیر اعظم کے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے سیاسی جلسے اور وہ بھی سندھ میں منعقد کرنے پر لازم تھا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ردعمل سامنے آتا۔ اس حوالے سے سینیٹر شیری رحمن نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص کو علاقے کا نام ہی معلوم نہ ہو، اُسے وہاں کے عوامی مسائل کا کیا علم ہوگا۔ کوئی وزیر اعظم کو بتائے کہ وہ ’’چھچھرو‘‘ میں نہیں بلکہ ’’چھاچھرو‘‘ میں ہیں۔ وزیر اعظم نے تھرپارکر کو پسماندہ ترین علاقہ قرار دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کا علاقہ کوہستان سب سے پسماندہ ہے جہاں گزشتہ 6 برس سے تحریک انصاف کی حکمرانی ہے اور وہاں کے 95 فیصد لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے بھی عمران خان کے جلسے سے خطاب کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وزیر اعظم نے سندھ میں آکر کرپشن کارڈ کھیلنے کی ناکام کوشش کی۔ صحت کارڈ پی ٹی آئی کی تبدیلی کا فلاپ ڈرامہ ثابت ہوا ہے۔ سینیٹر کرشنا کماری نے بھی وزیر اعظم کی آمد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں کرفیو کا ماحول بنا کر ایک اجنبی شخص تھر میں آیا، جب انہوں نے یہاں کے عوام کو کچھ دینا ہی نہیں تھا تو آنے کی زحمت کیوں کی؟۔
ملکی سیاسی بساط پر اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مہرے آمنے سامنے ہیں اور سیاسی محاذ آرائی جاری ہے جبکہ سندھ کی حکمراں جماعت کی قیادت اور رہنماؤں کے خلاف مقدمات در مقدمات کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ اس دوران اشارے دیے جا رہے ہیں کہ مزید رہنماؤں اور اہم سرکاری ملازمین کے خلاف بھی تحقیقات شروع ہونے والی ہیں جس کے نتیجے میں مزید گرفتاریاں بھی بعید از قیاس نہیں۔ صورت حال ایسے ہی بڑھتی رہے گی کہ بجٹ کا وقت شروع ہونے والا ہے، جس پر حکومت اور اپوزیشن کو مزید 6ماہ گزارنے کیلئے اہم موضوع مل جائے گا۔ عوام مہنگائی اور ٹیکس بڑھنے کے بعد دال روٹی کے چکر میں مصروف ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ ماضی کی طرح چلتا رہے گا۔
تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے اب تک فیصلے اور اعلانات کے سوا کوئی ٹھوس اقدام یا نتیجہ ایسا سامنے نہیں آیا جس سے عوام براہ راست فیض یاب ہوئے ہوں۔ گوکہ ابھی موجودہ حکومت کو ملکی باگ ڈور سنبھالنے زیادہ وقت نہیں ہوا ہے، لہٰذا اس ’’واحد‘‘ نقطے کو اپنے حق میں گردانتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر ایسی پالیسیاں اور فیصلے کرنا ہوں گے کہ جس سے عوام کے معاشی مسائل کسی حد تک حل ہونا شروع ہوں اور کاروباری طبقہ جو اس وقت شدید معاشی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہے، اسے کچھ ریلیف حاصل ہو۔
ماضی میں منی بجٹ اور ٹیکس سے متعلق مختلف فیصلوں کے نتائج سے عوام خوش ہیں نہ تاجر۔ عمران خان کو کامیاب ہونے اور حالات کو اپنے حق میں موڑنے کیلئے اپوزیشن سے مشاورت، انہیں اعتماد میں لینے سمیت دریا دلی کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہوگا، بصورت دیگر عوام تو سمجھ ہی چکے ہیں کہ اس ملک میں حکمرانی کے 5 برس پورے کرنے کا کھیل اسی طرح چلتا رہے گا۔