Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عرب ،مغرب میں کامیاب اور اپنے یہاں ناکام کیوں؟

عبداللہ بن بخیت ۔ الریاض
مصری نژاد امریکی اداکار رامی مالک نے امسال آسکر ایوارڈ جیت لیا۔ اس کی صدائے باز گشت پوری عرب دنیا میں سنی گئی۔ رامی پہلے عرب اداکار نہیں جنہوں نے یہ ایوارڈ جیتا ہو۔ یہ آخری بھی نہیں ہونگے۔ مغربی ممالک میں بہت سارے عرب تارکین، سائنس فکر و نظر اور کھیلوں میں کمال کا مظاہرہ کرنے پر ایوارڈ جیت چکے ہیں۔ 
ہر انسان میں 2طرح کی ذہانت ہوتی ہے۔ ایک تو انفرادی مانی جاتی ہے ۔ یہ دنیا بھر کے مرد وزن میں پائی جاتی ہے۔ دوسری سماجی ذہانت آپریٹنگ سسٹم کہلاتی ہے۔ یہ بات بآسانی کہی جاسکتی ہے کہ برطانوی عوام نائیجریا کے عوام سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ برطانوی شہریوںکی ایجادات کا انبار اور انکی پرآسائش زندگی نائیجریا کے عوام کے مقابلے اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اگر برطانیہ میں سکونت پذیر کوئی نائیجرین ادب یا سائنسی ایوارڈ لیتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس میں کسی نسلی تفریق کا ردعمل ہوگا بلکہ اس کا باعث”سماجی ذہانت“ہے۔
مغربی ملک میں رہنے والا کچھ بھی کرسکتا ہے جبکہ تیسری دنیا کا باشندہ کچھ کرسکنے سے قاصر رہتا ہے۔ ہم روزمرہ کی زندگی میں ایک جملہ دہراتے رہتے ہیں کہ اہل مغرب ناکام کو حوصلہ دیکر کامیاب بنادیتے ہیں اور تیسری دنیا کے لوگ اپنے کامیاب انسان کو بر ا بھلا کہہ کر ناکا م بنادیتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ جملہ سادہ لوحی کا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ مغرب سائنس کی وجہ سے ترقی کررہا ہے۔ ہم نے علم درآمد کیا۔ اپنی جامعات کو سائنسدانوں سے آباد کیا۔ اپنے یہاں اعلیٰ درجے کی لیباریٹریاں قائم کیں۔ بعض عرب اور مسلم ممالک نے سائنسی تحقیق پر خطیر دولت صرف کی لیکن جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔
یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ مسئلہ سائنس کی درآمد یا سائنسدانوں کی تقرری اور حوصلہ افزائی کا نہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ آئن اسٹائن کا نظریہ ہر لائبریری میں موجود ہے۔ جو ملک چاہے میزائل بناسکتا ہے۔ سائنسی نظریات اسکولوں کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جو بات کئی لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے ،وہ یہ ہے کہ ”علم“ (سائنس) الگ شے ہے اور ”سائنسی ذہن“ یا ناقدانہ تفکر مختلف شے ہے۔
اسے مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ایک یونیورسٹی پروفیسر عرب دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی میں لکچر کے دوران یہ کہے کہ ” جِنّ چاول کھاتے ہیں“ تو اس جملے کے معنی برطانوی معاشرے میں نشو و نما والا انسان الگ انداز میں لے گا اور عرب یا نائیجرین کسی اور تناظر میں سمجھے گا۔ یہ پروفیسر جسے اپنے معاشرے میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جسے یونیورسٹی میں تدریس کا موقع دیا جاتا ہے ،مذکورہ جملہ کہنے پر برطانیہ میں ”مضحکہ“ بن جائیگا۔ یونیورسٹی کی بات کو چھوڑ دیجئے، برطانیہ میں پرائمری اسکول کے بچے اس کا مذاق اڑائیں گے۔
نائیجرین اور عرب مغرب میں اس لئے کامیاب ہیں کیونکہ وہ جنات کو چاول کھانے کی اجازت صرف اپنے ملک میں دیتے ہیں برطانیہ میں نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: