دولت کا ارتکاز ، غربت کے خاتمہ میں اولین رکاوٹ
دنیا کی دولت پر قابض 26امیر ترین افراد کی فہرست جاری کرنے پر بین الاقوامی اداروں نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ سماجی انصاف قائم کرنے اور دولت کے ارتکازکے انسدادکے لئے قانون سازی کی جائے۔
سعودی کالم نگار عیسی الحلیان نے المدینہ اخبار میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اسی موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں دولت کے ارتکاز کے باعث امیروں اور غریبوں میں خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے۔
عالمی ادارے آکسفام کی سربراہ نے اپنے ایک بیان میں توجہ دلائی ہے کہ امیروں اور غریبوں میں بڑھتی ہوئی خلیج غربت میں اضافے کا بنیادی سبب ہی نہیں بلکہ غربت میں کمی لانے کی تمام کوششوں کو بے سود کرنے کا باعث بھی ہے۔
دولت کے ارتکاز کے خطرناک نتائج کا اندازہ ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ایتھوپیا میں آبادی کی شرح ایک سو ملین ہے ۔ وہاں صحت پر صرف کیا جانے والی مجموعی بجٹ کا تقابل دنیا کے امیر ترین شخص جیف بیزوس کی دولت سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایتھوپیا صحت پر جتنی رقم خرچ کرتی ہے وہ جیف بیزوس کی دولت کا ایک فیصد بھی نہیں۔
فوربز میگزین کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا کے امیر ترین افراد کی ثروت میں 900بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ یعنی مالدار لوگوں کی ثروت میں روزانہ 2.5بلین ڈالر کا اضافہ ہوتا رہا جبکہ کرہ ارضی پر رہنے والے لوگوںکے حصے میں ملنے والی دولت میں 11فیصد کمی واقع ہوئی۔
گلوبلائزیشن کے خلاف کام کرنے والے اداروں نے یہاں تک کہا ہے کہ اہل ثروت اور عالمی کمپنیاں اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی نہیں کرتے۔اگر وہ اپنی حقیقی آمدنی کے مطابق صرف ٹیکس ہی دیا کریں تو دنیا سے غربت کی شرح میں خاطر خواہ کمی ممکن ہوسکتی ہے۔
ان اداروں کا کہنا ہے کہ اگر اہل ثروت اپنی دولت کا صرف ایک فیصد حصہ بھی ادا کریں تو اس رقم سے دنیا کے 262ملین بچوں کو مناسب تعلیم دی جاسکتی ہے۔
کالم کے آخر میں عیسی الحلیان لکھتے ہیں:
دنیا بدل رہی ہے۔ اب سرمایہ دارانہ نظام خود مغرب میں مشکوک ہوتا جارہا ہے۔ جس مغرب نے سرمایہ دارانہ نظام کو جمہوری نظام کے مساوی اور برابر کردیا ، اب وہ خود اس کے برے نتائج سے چیخ رہا ہے۔ اب مغرب پکار کر سماجی عدل کا مطالبہ کرنے لگا ہے۔ فرانس میں ’’یلو جیکٹ‘‘ مظاہرے اس کی کھلی دلیل ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام کا مرکز سمجھا جارہاہے۔ آج فرانس میں جو کچھ ہورہاہے وہ اسی دولت کے ارتکاز کا نتیجہ ہے ۔ لوگ سماجی عدل کی بنیاد پر نئے نظام کی تشکیل چاہتے ہیں۔