Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مملکت میں خواتین کا تعمیری کردار، وقتی جذبہ یا مستقل عمل؟

***محمد حسن مفتی ۔ عکاظ***
حالیہ ایام کے دوران سعودی عرب آتے جاتے وقت میں نے فضائی کمپنیوں ، محکمہ پاسپورٹ اور محکمہ کسٹم کے دفاتر میں خواتین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ نوٹ کیا۔ یہ وہ شعبے ہیں جن پر ماضی قریب تک مردوں کا راج تھا۔ اب ہوائی اڈوں سے سفر کرنے والوں کیلئے ایئرپورٹ کے مختلف شعبوں میں سعودی ملازم خواتین کو کام کرتے ہوئے دیکھنا معمول سا بن چکا ہے۔ مجھے سب سے اچھی بات یہ لگی کہ سعودی حکومت نے جو خواتین کو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارادا کرنے کے  قابل بنانے کا مشن شروع کیا تھا اس کے خوشگوار نتائج ابھر کر سامنے آنے لگے ہیں۔
سعودی وژن 2030 کا ایک اہم ہدف بے روزگاری ، خصوصاً خواتین کی بے روزگاری کا خاتمہ ہے۔ اب یہ ہدف پورا ہونے لگا ہے اور ہر ایک کو نظر آنے لگا ہے۔ جو لوگ سعودی خواتین کو روزگار دلانے کے پروگرام کی بابت شکوک و شبہات کا اظہار کررہے تھے زندگی کے اہم شعبوںمیں خواتین کی موجودگی انکا عملی جواب ہے۔ مجھے سچ مچ یہ دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی کہ سعودی خواتین نہ صرف یہ کہ ہوائی اڈوں پر کام کررہی ہیں بلکہ معاشرے کی ترقی کے کاررواں میں اپنی شراکت قابل قدر انداز میں ثابت کرنے لگی ہیں۔
سعودی حکومت کا اسٹراٹیجک ہدف ہے کہ سعودی خواتین ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ انکے لئے شایان شان ملازمتوں کے دروزے کھول دیئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض کلیدی عہدوں پر انکی تقرری کا سلسلہ بھی توجہ طلب انداز میں شروع کردیا گیا ہے۔ یہ ایک طرح سے شاہ سلمان اور انکے ولی عہد کے مشن کی تاجپوشی کے مماثل ہے۔
سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا فیصلہ پے درپے وسیع اور مفید گہری اصلاحات کے زریں سلسلے کی ایک کڑی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ فیصلہ معاشرے کے نصف بہتر کے تئیں قدرو منزلت کا اظہار ہے۔ خواتین کو معاشرے کی تعمیر و ترقی میں شامل کرنے اور انہیں لائق فائق بنانے  کی حکمت عملی جاری و ساری ہے۔  معاشرے کے ہر طبقے کی خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں شریک کیا جارہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب خواتین کیلئے کسی نئے شعبے کے دروازے نہ کھول دیئے جاتے ہوں۔ خواتین اعلی قیادت کی سرپرستی میں انتہائی جرات اور بے باکی کے ساتھ ہر میدان میں قدم رکھنے لگی ہیں۔ ہمیں یقین ہے  کہ آنے والے ایام اورآنے والے برسوں کے دوراان خواتین ریاست کی بہت ساری اسٹراٹیجک اسکیموں کا اٹو ٹ حصہ بن جائیں گی۔
خواتین سے متعلق فتوحات ایک طرح کی تاریخی کامیابی کا روشن ثبوت ہیں۔ کئی عشروں سے انکا انتظار تھا۔ خواتین کو ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنانا بہت بڑی اور ٹیڑھی گتھی تھی۔ سعودی ریاست اپنے قیام کے  روز اول سے اس مسئلے سے  دوچار رہی۔ اس کے بہت سارے اسباب ہیں۔ چند سطور میں انکا احاطہ ممکن نہیں۔ بہت سارے اسباب کا تعلق خواتین کے روزگار پر پابندیوں سے تھا۔ یہ اسباب ایسے نہیں تھے جنہیں قبول کیاجاسکے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی بات یہی کہی جاتی تھی کہ یہ ہمارے یہاں کا رواج ہے۔ نسل در نسل چلتا چلا آرہا ہے۔ یہ ایسا رواج تھا جسے دینی احکام کی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ سعودی عرب نے چھٹے عشرے سے خواتین کو ملک و قوم کے معمار کا کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کا مشن شروع کیا تھا۔ آغاز خواتین کی تعلیم سے کیا گیاتھا۔ شاہ فیصل رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے دور میں گرلز اسکول کھلوائے۔اس کے بعد بھی خواتین کے لئے  ملازمت کے دروازے بند رہے۔ شدت پسند عناصر خواتین کے روزگار کی ڈٹ کر مخالفت کرتے رہے۔ بمشکل تمام  صحت اورتعلیم کے شعبوں میں اسکی اجازت دیتے تھے۔ خواتین کے روزگار کا دائرہ بند سا رہا اور انتہائی سست رفتاری کے ساتھ آگے بڑھا۔
سابقہ مساعی  کی تاج پوشی  نوجوان قائد محمد بن سلمان کے وژن  کے ذریعے ہوئی۔ انہوں نے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں خواتین کی شراکت کے تصور کو راسخ کیا۔ اس کے بعد ہی بہت سارے شعبوں میں خواتین کے لئے روزگار کے دروازے کھل گئے۔ خواتین نمایاں عہدوں پر سرفراز ہونے لگیں۔  اس تبدیلی نے یہ بات ذہنوں میں بٹھا دی کہ متعدد شعبوں میں خواتین کا کام کرنا استثنائی عمل نہیں بلکہ یہی اصل قاعدہ ہے۔  
اصولی اور فطری بات یہی ہے کہ خواتین زندگی کے ہر مناشب شعبے میں جدوجہد کریں۔ وہ معاشرے کا نصف بہتر ہیں۔ معاشرے کو انکی جدوجہد اور انکی کارکردگی کی اشد ضرورت ہے۔ کوئی بھی معاشرہ 50فیصد توانائیوں کو معطل کرکے ترقی نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی معاشرہ اپنی 50فیصد توانائیوں کے  بل پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
یہ بات واقعی مضحکہ خیز ہے کہ ایسے  عالم میں جبکہ سعودی خواتین کو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے باب میں اپنا کردارشایان شان طریقے سے ادا کرنے کے قابل بنانے والی جدوجہد ٹھوس بنیادوں پر ہورہی ہے۔ایسے عالم میں کئی منبر اور محراب سعودی عرب کے خلاف خواتین دشمنی اور خواتین کے حقوق ہڑپ کرنے کے الزامات کی بوچھاڑ میں مصروف ہیں۔یہ پروپیگنڈہ کرنے والے لوگ اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کررہے ہیں کہ گزشتہ 4 برسوں کے دوران خواتین کو کامیا ب بنانے کیلئے جس قدر مساعی مملکت میں صرف کی گئی ہیں وہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے برخلاف فضول گوئی کرنے والے اشتعال انگیز اور مشکوک مہم کے علمبردار ہی کہے جاسکتے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔ حالیہ مساعی کی بدولت بہت ساری کامیابیاں ملیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ مملکت مخالف پروپیگنڈے پر عوام کان نہیں دھڑ رہے ہیں۔ انکی تردید کیلئے زمینی حقائق بہت  کافی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: