’پاکستان میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ‘
رابعہ اکرم خان
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق 2018 ءمیں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
بدھ کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں روزانہ6 سے15برس کی عمر کے 10سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں سب سے زیادہ 63 فیصد بچے صوبہ پنجاب میں جنسی تشدد کا شکار ہوئے ، صوبہ سندھ سے 27 فیصد ، خیبر پختونخو ا سے4 فیصد، اسلام آبادسے 3فیصد، بلوچستان سے2 فیصد جبکہ 34 واقعات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور 6 گلگت بلتستان سے سامنے آئے۔
ساحل کے اعداد وشمارکی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں ، اسلام آباد، آزاد کشمیراور گلگت بلتستان سے بچوں پر جنسی تشدد کے کل 3832 واقعات رپورٹ ہوئے اور اسی عرصے میں جنسی تشدد کے بعد قتل کیے گئے بچوں کی تعداد 92 ہے۔
2017 ء میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی تعداد 3445 تھی۔
2018ء کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال اغوا کے 923 لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 589 ، زیادتی کے 537، بچوں کی گمشدگی کے 452، زیادتی کی کوشش کے 345، لڑکوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے 282 واقعات پیش آئے۔
اس کے علاوہ اجتماعی زیادتی کے6 15 اور کم عمری کی شادی، ونی ، سورہ اور سنگ چھتی کے 130 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں110 لڑکیاں اور 20 لڑکے شامل ہیں۔
بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونے کے حوالے سے ساحل کے میڈیا کورآرڈینیٹر ممتاز حسین گوہرنے اردو نیوز کو بتایا کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے ویسے اقدامات نہیں ہورہے ہیں جیسے ہونے چاہئیں۔
ان کے مطابق جنسی تشدد کے بعدبچوں کو قتل کرنے والے مجرموں کے لیے سخت سزائیںہونی چاہئیں اور جس طرح قصور میں زینب کے کیس کو نمٹایا گیا ویسے ہی دوسرے کیسز کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہی ایک طریقہ ہے جس سے اس قسم کے واقعات میں کمی ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی وزارت میں انٹرنیشنل کمٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل محمد حسن منگی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں پر جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے حکومت ’زینب الرٹ بل ‘ لا رہی ہے اور اس میں مجرموں کے لیے مزید سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایاکہ بچوں پر جنسی تشدد کیسز کی روک تھام کے لیے حکومت آگاہی کے پروگرام بھی کر رہی ہے۔
ساحل کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے میں زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو بچوں کے قریبی جاننے والے ہیں۔
ان واقعات میں 72 فیصد دیہی علاقوں جبکہ 28فیصد شہری علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔
اس رپورٹ میں تجاویز دی گئی ہیں کہ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے معلومات کو نصاب میں شامل کیا جائے کیونکہ بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ اپنی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زور دیا گیا ہے کہ بچوں کے لیے موافق عدالتیں قائم کی جائیں اور پیشہ ورانہ طریقے سے بچوں،اساتذہ ،ڈاکٹرز، اسکول کونسلرزاور پولیس میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جنسی تشدد کو روکنے، ملزموں کو پکڑنے اور انتظامی معاملات میںمدد مل سکے۔
ساحل کا کہنا ہے کہ علاقائی سطح پر بچوں کے تحفظ کے لیے اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے اور جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔