Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدارتی نظام کیا محض سازشی مفروضہ ہے؟

وسیم عباسی
گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت کی جگہ ایک صدارتی نظام حکومت لانے کے حوالے سے چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو ''اسلامی صدارتی نظام'' کے حوالے سے ایک باقاعدہ مہم بھی شروع کر دی گئی ہے۔ ملک کے چیدہ چیدہ صحافیوں، اداکاروں اور سیاستدانوں نے اس پر اپنی رائے بھی دی ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی اموربریگیڈیئر اعجاز شاہ نے صدارتی نظام کے امکان کو ایک ''بے کار بات ''قرار دیا ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدارتی نظام کی باتیں محض سازشی مفروضہ ہیں جو کہ ملک میں چلتی رہتی ہیں۔
  انہوں نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ ایسی باتیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ ملک کی ایک بڑی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی گزشتہ ماہ کراچی پریس کلب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدراتی نظام کی حمایت کرنے والے آمریت کی پیداوار ہیں۔
صدارتی نظام کیسے آ سکتا ہے؟
اردو نیوز نے اس حوالے سے ملک کے ممتاز آئینی ماہرین سے رائے طلب کی۔ ان کی رائے ہے کہ صدارتی نظام کانفاذ موجودہ حالات میں کافی مشکل ہو گا کیوں کہ اس کے لئے آئین میں ترمیم درکار ہو گی۔ یاد رہے کہ آئین میں ترمیم تب ہی ممکن ہے جب اس ترمیم کو قومی اسمبلی اورسینیٹ کے دو تہائی ارکان کی حمایت حاصل ہو۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی اگر صدارتی نظام کی حمایت بھی کر دیں تو ان کے پاس قومی اسمبلی میں بمشکل سادہ اکثریت ہے جب کہ سینٹ میں اپوزیشن کوواضح اکثریت حاصل ہے۔ تاہم صدارتی نظام کے حامی یہ تجویز بھی دے رہے ہیں کہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے بھی قوم سے رائے لے لی جائے اور اکثریت کی حمایت کے بعد صدارتی نظام متعارف کروادیا جائے۔
سابق چیئرمین سینٹ اور آئینی امور کے ماہر وسیم سجاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے خیال میں اس وقت صدارتی نظام لانا ممکن نہیں ہے۔ ''پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام کی حامی ہیں اس لیے عوامی سطح پر صدارتی نظام کو پزیرائی ملنا ناممکن ہے۔'' انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم بھی کروا لیا جائے تو آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی ہے۔
 پارلیمانی نظام وفاق کا ضامن ہے؟
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضٰی صدارتی نظام کا تعلق ملکی بقا اورسلامتی سے جوڑتے ہیں۔ ان کے مطابق صدارتی نظام کو نافذ کیا گیا تو ملک قائم نہیں رہ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام میں چھوٹے صوبوں اورعلاقائی جماعتوں کی اہمیت برقرار رہتی ہے جس سے وفاق مضبوط ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم اور پارلیمانی نظام کو قانونی طور پر صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ریفرنڈم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی کیوں کہ پاکستان میں دستور موجود ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق جج اور آئینی ماہر جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے کہا کہ پارلیمانی نظام ہی بہتر نظام حکومت ہے اور اسے چلنے دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام کو ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم ہی ضروری ہے اور ریفرنڈم ترمیم کا متبادل کسی طور پر نہیں ہو سکتا۔
پارلیمانی اور صدارتی نظام میں فرق کیا ہے؟
اس وقت امریکہ، روس، چین، فرانس اور ترکی سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں صدارتی نظام نافذ ہے۔ اس نظام حکومت میں صدر حکومت اور مملکت، دونوں کا سربراہ ہوتا ہے۔صدارتی نظام میں صدر براہ راست منتخب ہوتا ہے اور اختیارات کا محور بھی وہی ہوتا ہے۔
پارلیمانی نظام میں وزیراعظم پارلیمنٹ سے منتخب ہو کر اختیارات کا مرکز بنتا ہے۔ اس نظام میں صدر کا عہدہ واجبی ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں وفاق کی تمام اکائیوں اور پارلیمان میں موجود چھوٹی جماعتوں کی حکومت سازی میں خاصی اہمیت ہوتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے علاوہ برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ملائیشیا اوردولت مشترکہ کے زیادہ تر ممالک میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ پاکستان میں صدارتی نظام عام طور پر فوجی آمروں کے دور میں نافذ رہا جبکہ موجودہ پارلیمانی نظام کی بنیاد 1973 کے آئین میں رکھی گئی تھی۔
 

شیئر: