امریکہ کا ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا اقدام پیر سے باقاعدہ طور پر نافذالعمل ہو گیا ۔ اس کے بعد سے امریکی اداروں یا شخصیات کا تنظیم کی کسی بھی قسم کی مالی امداد کرنا جرم قرار دیا
جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جا ئے گی۔
پاسداران انقلاب کو باقاعدہ طور پر ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینے کا فیصلہ پیر کو امریکی فیڈرل رجسٹرار میں نوٹس شائع ہونے کے بعد عمل میں آیا ۔
امریکہ کی جانب سے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم ٹھہرانے کا اقدام دنیا میں کسی بھی ملک کی فوج کو دہشت گرد قرار دینے کا پہلا واقعہ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے گذشتہ ہفتے پاسداران کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد امریکی کانگریس کے ساتھ اس حوالے سے مشاورت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
متعدد قانون سازوں نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کی حمایت کی تھی لیکن کچھ نے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور تیل کی فروخت کے حوالے سے لگائی گئی پابندیوں پرممکنہ رعایت دینے پر خدشات کا اظہاربھی کیا تھا۔
امریکہ نے تائیوان سمیت کچھ ممالک کو ایران سے تیل درآمد کرنے پر رعایت دی تھی جس کی میعاد رواں سال مئی میں ختم ہو جائے گی۔ ایران کے شدید مخالف امریکی قانون سازوں نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کو تیل برآمد کرنے کی رعایت دوبارہ نہ دیں۔
پاسداران انقلاب کا قیام ایران کے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد حکومت کی حفاظت کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ پاسداران کا سب سے اہم یونٹ ’قدس فورس‘ ہے جو کہ یروشلم کا عربی نام ہے۔
ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے تمام بینکوں اور کاروباری اداروں کو پاسداران کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاملات کرنے سے خبردار کیا تھاورنہ ان کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی حکومت کی جانب سے لئے گئے اس اقدام کے رد عمل میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا تھا کہ ایران امریکی فوج کو دہشت گرد وں کی لسٹ میں شامل کرے گا۔
پاسداران انقلاب کے کمانڈر محمد علی نے خبر دار کیا تھا کہ اگر امریکہ ایسی احمقانہ حرکت کرے گا تو پاسداران انقلاب دنیا بھر میں امریکی فوجیوں کو داعش کے طور پر لیتے ہوئے ان سے ایسا ہی برتاو کرے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ خطے میں امن کے خلاف مسلسل ایسے اقدامات کر رہاہے جس سے طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔تاہم ایران کی حکومت کی جانب سے اب تک کوئی ایسے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔