میڈیا71 میں کتنا آزاد تھا،اس وقت کے صحافیوں کی رائے
وسیم عباسی
پا کستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سوموار کی پریس کانفرنس میں کہا کہ 1971 میں پاکستان کا میڈیا آج کی طرح آزاد ہوتا تو شاید ملک نہ ٹوٹتا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کا پاکستانی میڈیا بدل چکا ہے اور وہ فوج کی رہنمائی کر رہا ہے۔
1971 میں پاکستان میں میڈیا کس طرح کام کر رہا تھا اور آج کا میڈیا کس قدر آزاد ہے۔ اس بارے میں اردو نیوز نے ستر کی دہائی میں صحافت کرنے والے 3 سینیئر صحافیوں سے بات کی۔
ڈاکٹر مہدی حسن
سینیئر صحافی پمرا کی شکایات کونسل کے سابق چیئرمین اور انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ستر کی دہائی میں صحافت سے وابستہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1971 میں مغربی پاکستان کے میڈیا نے بنگال میں رہنے والوں کے مطالبات اور سوچ کو عوام تک نہ پہنچایا جس کی وجہ سے یہاں کے عوام بنگال کے رہنے والوں کو غدار سمجھنا شروع ہو گئے۔ "ہمارا میڈیا بتاتا تھا سب بنگالی غدار ہیں۔غداری کا لیبل نقصان دہ ہوتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ آج کل پرائیوٹ ٹی وی چینل ہیں مگر اس وقت سرکاری ریڈیو اور ٹی وی تھے جو صرف حکومت کا موقف لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ کہ بنگلہ دیش اس لئے بنا کہ وہاں فوجی ایکشن کو عوامی حمایت حاصل نہ تھی اوروہ ناکام رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگالیوں کی اکثریت آپریشن کے خلاف تھی اس لیے پاکستان کی فوج کو دو محازوں پر لڑنا پڑا۔ ایک طرف انڈین حمایت یافتہ مقامی تنظیم مکتی باہنی تھی اور دوسری طرف انڈین فوج۔
ان کا کہنا تھا کہ 1971 کے فوجی آپریشن سے قبل انتخابات کے دوران میڈیا کافی آزاد بھی ہو گیا تھا کیوں کہ ایک سال کے لیے سخت قانون پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس کو معطل کر دیا گیا تھا ۔ میڈیا نے سیاسی جماعتوں کی طویل انتخابی مہم کے دوران بعض اوقات اخلاقیات کو بھی پامال کیا لیکن جونہی اس وقت کے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا میڈیا مکمل طور پر حکومتی قابو میں کر دیا گیا۔
ضیاءالدین
سینیئر صحافی ضیاالدین پاکستانی اخبارات ڈان اور ایکسپریس ٹریبیون کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں اور ستر کی دہائی کی صحافت کو قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس ایک سخت قانون تھا تاہم اس قانون کو صحافیوں نے پڑھ لیا تھا۔ "اس وقت ہمیں پتا تھا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔ جو کرسکتے تھے اس میں آخری حد تک جاتے تھے اور جو نہیں کر سکتے تھے اس کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتے تھے۔ "
ضیاءالدین کے خیال میں آج کا میڈیا 1971 کے میڈیا سے زیادہ پابندیوں کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دور میں سن نام کے اخبار میں ایک اداریہ چھپا تھا جس کو جو پڑھ لیتا تھا صورتحال سے آگاہ ہو سکتا تھا۔
بنگلہ دیش بننے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے میڈیا نے کافی کوشش کی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو اکھٹا رکھا جائے مگر وہاں پر کافی غلطیاں کی گئیں تھیں۔ ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا ۔دونوں پاکستان کے حصوں کے درمیان اور ہمارا زعم تھا کہ ہم مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کی حفاظت کر لیں گے جو کہ غلط تھا۔ ہمیں چاہیئے تھا کہ ہم مشرقی پاکستان میں مکمل بری، بحری اور دفاعی فوج رکھتے اور اس کا دفاع آزادانہ طور پر کرتے۔دوسری طرف بنگالیوں کے ساتھ امتیازی سلوک بھی ان کی ناراضی کی بڑی وجہ تھی۔
محمد علی صدیقی
پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان میں ریڈرز ایڈیٹر کے عہدے پر فائز محمد علی صدیقی 1971 میں مغربی پاکستان کے انگریزی اخبار سن کے ساتھ وابستہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر جنرل ایوب کے دور میں میڈیا پر سخت حکومتی کنٹرول تھا لیکن جب جنرل ایوب کے استعفی کے بعد ملک کی باگ ڈور جنرل یحییٰ نے سنبھالی تو میڈیا کو کچھ آزادی ملی تھی تاہم مشرقی پاکستان میں جب فوجی کریک ڈاون شروع ہوا تو پاکستانی میڈیا خاموش ہو گیا۔ "یہاں پرروز یہی خبر آتی تھی کہ انڈین آرمی ہار رہی ہے۔پھر ایک دم پتا چلا کہ انڈین آرمی مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئی اور بنگلہ دیش بن گیا"۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستانی لوگ برطانوی ریڈیو بی بی سی کے ذریعے حقائق سے کچھ کچھ آگاہ ہوتے تھے تاہم یہ بات درست ہے کہ جنگ کے دنوں میں دنیا میں کہیں میڈیا آزاد نہیں ہوتا۔
محمد علی صدیقی نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے اتفاق کیا کہ آج کا پاکستانی میڈیا 1971 کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے۔ آج میڈیا پر اپوزیشن کی خبریں چھپ رہی ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ پشتون آبادی کی نمائندگی پارلیمنٹ میں موجود متعدد جماعتیں کر رہی ہیں اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ ان کی آواز میڈیا پر نہیں آتی۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پر پریشر صرف حکومتی ہی نہیں ہوتا بلکہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔ اشتہارات کی بندش بھی بلواسطہ پریشر کا ذریعہ ہیں۔