Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایف بی آر کے نئے چیئرمین شبر زیدی کون؟‎

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے معاشی امور کے ماہر شبر زیدی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا چیئرمین لگا دیا ہے ۔
پیر کو اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے سید شبر زیدی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا چیئرمین بنانے کا اعلان کیا ۔
ماضی میں سندھ کی نگراں حکومت کے دوران وزیر خزانہ کے طور پر خدمات انجام دینے والے شبر زیدی پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں ۔
وہ ملک میں قائم انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان اورساؤتھ ایشین فیڈریشن آف اکاؤنٹنٹس کے صدر رہ چکے ہیں ۔ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ نجی شعبے کے ساتھ کام کرتے ہوئے گزارا ہے ۔
مگر کیا ایف بی آر کے نئے چیئرمین، ٹیکس سے جڑے موجودہ مسائل کا حل نکال سکیں گے؟
اس بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ماہرِ اقتصادیات قیصر بنگالی کا کہنا تھا، ’کسی کو بھی ایف بی آرکا چیئرمین لگا لیں حکومت کی آمدنی میں کمی کا مسئلہ آسانی سے حل نہیں ہو سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ ملک کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ 

پاکستان میں ٹیکس نیٹ کے اضافے سے متعلق قیصر بنگالی نے کہا کہ ’ٹیکس نیٹ میں توسیع ایک سیاسی مسئلہ ہے اور وزیرِاعظم کی مرضی کے بغیر ایف بی آر قابل ٹیکس آمدنی والے افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کر سکتا۔‘
 قیصر بنگالی نے نادرا کی جانب سے کیے جانے والے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سروے میں سات لاکھ ایسے امیر خاندانوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو قابل ٹیکس آمدنی ہونے کے باوجود ٹیکس نہیں ادا کرتے تھے۔ ’نشاندہی کے باوجود ان خاندانوں کو ایف بی آر ٹیکس نیٹ کے دائرے میں نہ لا سکا۔‘
     انہوں نے ملک کی آمدنی کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آمدنی میں اضافہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے سے نہیں ہو گا بلکہ دفائی بجٹ سمیت غیر ترقیاتی اخراجات کو 20 فیصد کم کرنا ہوگا۔
شبر زیدی کی بطور ایف بی آر چیئرمین تعیناتی سے متعلق ماہر معاشی امور اور کالم نگار خرم حسین کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی پر کوئی سوالیہ نشان نہیں اور شبر زیدی ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور بطور مشیر ٹیکس سے متعلق معاملات پر حکومت کو رائے دیتے رہے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ شبر زیدی کے کیرئیر کا بیشتر حصہ نجی شعبے اور بڑے کاروباری اداروں کے ساتھ  کام کرنے میں گزرا ہے ’جس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب وہ بطور سرکاری ادارے کے سربراہ عام آدمی کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ٹیکس سے متعلق مناسب پالیسی مرتب کر سکیں گے؟’

شیئر: