تیل کہاں ہے؟ ’ذخائر کی تلاش میں پاکستانی وزرا کی پرواز‘
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی حیدر زیدی نے کہا ہے کہ وہ سمندر سے نکلنے والے تیل کے ذخیرے کو دیکھنے جا رہے ہیں۔
جمعہ کی صبح اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے علی حیدر زیدی نے وفاقی وزیر پٹرولیم عمر ایوب خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں کھینچی گئیں تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'ہم کراچی کے ساحل سے سمندر کے اندر 230 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تیل کے بڑے چشمے کی طرف جا رہے ہیں۔'
ان کی اس ٹویٹ کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ کچھ صارفین ان سے 'اچھی خبر' کی امید کر رہے ہیں تو کچھ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ 'تیل کہاں ہے؟'
خیال رہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے رواں سال مارچ میں صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے کہا تھا کہ قوم کو جلد بڑی خوش خبری مل سکتی ہے۔ ’کراچی کے نزدیک سمندر کے نیچے سے تیل اور گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہونے کی امید ہے۔‘
عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ تیل کے ذخائر دریافت ہونے کی خوش خبری آئندہ دو سے تین ہفتوں میں مل سکتی ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان کے تمام معاشی مسائل حل ہو جائیں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
علی زیدی کی ٹویٹ پر جواب میں فرید اقبال نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'سرکار! اس تیل نکالنے پر پیسہ مت خرچ کریں۔ یہ جو عوام کا تیل نکل رہا ہے مہنگائی سے اسی کو کام میں لے آئیں۔'
سبطین حسین نامی ایک اور صارف نے سوال کیا کہ 'کیا آج پاکستان کے لیے بڑا دن ہے؟'
ایک اور صارف ظفر ملک نے کہا کہ 'اللہ کامیابی نصیب کرے بھائی۔ ہم اچھی خبر کے منتظر ھیں، کتنے دنوں سے اس خوش خبری کے لیے دعائیں کر رہا ہوں۔'
واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے تیل کی دریافت سے متعلق بیان پر پیپلز پارٹی دور کے سیکرٹری پٹرولیم جی اے صابری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کا بیان ابھی خواہش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک غیر پیشہ وارانہ رویہ ہے۔ سمندر میں ڈرلنگ کے عمل میں چار مختلف کمپنیاں حصہ لے رہی ہیں لیکن وزیراعظم نے صرف ایک امریکی کمپنی کا نام لیا ہے جو دوسری کمپنیوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
یاد رہے کہ تیل دریافت کرنے والی امریکی کمپنی ایگزون موبل اور ای این آئی رواں سال جنوری کے بعد سے تیل کی تلاش کے لیے کراچی کے سمندری علاقے کیکڑا 1 میں 230 کلومیٹر تک انتہائی گہری کھدائی کررہی ہیں۔
ایگزون موبل کمپنی تقریباً ایک دہائی بعد گذشتہ برس ہونے والے اُس سروے کے بعد پاکستان واپس آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی سمندر میں تیل کا بہت بڑا ذخیرہ ہو سکتا ہے۔