فواد چوہدری اور منیب الرحمان کی عید کے چاند پر اختلاف رائے ہے
کیا کمال بات ہے کہ دو اعشاریہ 15ملین مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل سعودی عرب کو رمضان اور عیدین کا صرف ایک چاند کافی ہے مگر پاکستان جو رقبے کے اعتبار سے سعودی عرب سے ڈیڑھ گنا (لگ بھگ نو لاکھ مربع کلو میٹر) کم ہے ۔اس کا ایک چاند سے گزارہ نہیں ہوتا۔
ہر سال پاکستان کو کم از کم دو چاندوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ایک وہ جو پشاور کی مسجد قاسم علی خان کی چھت پر مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو ٹپائی دیتا ہے اور دوسرا کراچی کے حبیب بینک پلازہ پر مفتی منیب الرحمان اور ہمنواؤں کو۔
توقع تھی کہ‘ ایک ملک ایک نظام‘کے نعرے پر برسرِاقتدار ہونے والی عمرانی حکومت چاند کو بھی دو سے ایک کر دے گی۔الٹا یہ ہوا کہ وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے فلکیاتی کیلکولیٹر اور سائنسی چارٹوں کی مدد سے تیسرا ’چن ‘ چڑھا دیا۔ مگر خیبر پختونخوا میں انہی کے برسرِ اقتدار بھائی بندوں نے وفاقی و سائنسی چاند کا انتظار کرنے کے بجائے محض صوبائی یکجہتی دکھانے کے لیے پوپلزئی چاند کی روشنی میں عید منانے کا فیصلہ کر لیا۔
صوبائی یکجہتی کے اس مظاہرے کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ آدھے خیبر پختونخوا نے کل عید منائی اور باقی نصف ( ہزارہ ڈویژن، سوات اور ایک چوتھائی پشاور ) منگل کو نمازِ عید میں ملکی سالمیت و یکجہتی کی دعائیں مانگتا پایا گیا۔کچھ وفاقی وزیروں نے کل عید کی باقی آج بھگتا رہے ہیں۔تو یہ ہے کثرت میں’ وحدت‘ کی عمرانی تشریح۔
اسی پر بس نہیں ہوئی۔ صوبائی وزیرِ اطلاعات و امورِ قمر شوکت یوسف زئی نے ملک گیر قمری یکجہتی کے لیے تجویز دے ڈالی کہ مفتی پوپلزئی کو ہی اگر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا سربراہ بنا دیا جائے تو پورے پاکستان میں ایک ہی چاند نظر آنا شروع ہو جائے گا۔جبکہ فواد چوہدری نے چاند کے بارے میں جھوٹی شہادتیں پھیلانے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ فواد چوہدری کی سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑانے والوں کی گوشمالی ہونا چاہیے۔اچھی بات یہ ہے کہ دونوں آج ایک ساتھ عید منا رہے ہیں۔
ایک ستم ظریف مبصر کا کہنا ہے کہ رویتِ ہلال کو بھی اٹھارویں ترمیم کا حصہ قرار دے کر صوبائی دائرے میں دے دیا جائے تاکہ ہر وفاقی یونٹ اپنی سہولت و صوابدید کے مطابق چاند ماری کر سکے۔
خیبر پختونخوا یہ حق غیر رسمی طور پر کئی برس سے استعمال کر رہا ہے۔چنانچہ دیگر صوبوں میں قمری احساسِ محرومی پیدا ہو رہا ہے جس سے وفاق مزید کمزور ہو رہا ہے۔
اس چھیچھا لیدر سے ہٹ کے مجھ جیسے مورکھ ایک اور معمہ بھی سمجھنا چاہتے ہیں۔یہ ایک سے زائد چاند صرف رمضان اور عیدین کے موقع پر ہی کیوں نظر آتے ہیں۔باقی قمری مہینوں میں دوسرا چاند کہاں چھپ جاتا ہے؟
کبھی کسی نے سنا کہ محرم کے دو چاند نظر آئے ہوں لہٰذا اس سال پاکستان میں دو عاشورے ہوں گے ۔شعبان یا ربیع الاول کے دو چاند کسی نے دیکھے؟ تو کیا چاند عیدین کی خوشی میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے یا علماِ کرام کی بصارت رمضان ، شوال اور زوالحج میں دوگنی تگنی ہو جاتی ہے ؟
ویسے کہتے ہوئے اچھا تو نہیں لگ رہا مگر بہت ہی مجبوری میں مودبانہ گزارش ہے کہ اس ملک میں جب کوئی کام بگڑ جاتا ہے تو عام آدمی یا تو چیف جسٹس کی جانب ازخود نوٹس لینے کے لیے بے چارگی سے دیکھتا ہے یا پھر فوج کی جانب نگاہ اٹھتی ہے۔
اب تو ہر شعبہ اتنا دگرگوں ہو چلا ہے اور جنتا اس قدر ناامید ہے کہ محلے کی گلی کا فرش پکا کرنے کی اپیل بھی مئیر، وزیرِاعلی یا وزیرِاعظم سے نہیں بلکہ سیدھے سیدھے چیف جسٹس سے کی جاتی ہے۔اگر سائل کو کوئی شک ہو تو پھر بچے کی بازیابی سے لے کر کپاس کے برآمدی کوٹے میں اضافے تک کے معاملے میں چیف آف آرمی سٹاف سے مداخلت کی درخواست ہر تیسرے اشتہار میں دیکھی جا سکتی ہے۔
لوگوں پر رفتہ رفتہ کھلتا جا رہا ہے کہ وزیرِاعظم اپنے بیان باز وزرا کو ہی نہیں سنبھال پا رہے تو باقی امور میں کیا توقع رکھی جائے ۔جس سرکار کو دن میں تارے نظر آ رہے ہوں وہ قمری بقراطیوں کا کیا حل تلاش کرے گی۔
زیادہ سے زیادہ خانصاحب یہی کہیں گے نا کہ گھبرانا نہیں ہے ۔اچھے دن ضرور آئیں گے ، میرے کرن اور ارجن ضرور آئیں گے۔
غالب بہت چالاک شاعر تھا۔پونے دو سو سال پہلے ہی اس نے موجودہ حکومت کے لیے کہہ ڈالا تھا ۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
ان حالات میں دل پر پتھر رکھ کے بادلِ نخواستہ گزارش ہے کہ گھوم پھر کے آخر میں نگاہ فوج کی طرف ہی اٹھتی ہے۔ہمیں پورا ادراک ہے کہ فوج نے اس ملک کے روزمرہ امور درست طور پر چلانے کے لیے سیاست دانوں کا پورا پورا ساتھ دیا اور آج بھی دے رہی ہے۔ باوجود یہ کہ اس کے کاندھوں پر پہلے سے ہی ملکی سلامتی کی اندرونی و بیرونی نگہبانی کا بھاری بوجھ ہے۔
مگر یہ بھی تو محلِ نظر رہے کہ جو سیاسی قیادت زمین پر سیدھا قدم نہیں رکھ پا رہی وہ چاند کی چال کیسے سیدھا کر پائے گی۔چنانچہ جہاں اتنے شعبوں میں سیاسی حکومت کی معاونت ہو رہی ہے وہیں دست بستہ بنتی ہے کہ رویتِ ہلال کی ذمہ داری بھی آئی ایس پی آر گر مستقل نہ سہی تو کم از کم تب تک اٹھا لے جب تک چاند بازوں کو عقل نہیں آ جاتی۔
تمام مکاتیبِ فکر آج بھی کسی پر آنکھ بند کر کے اعتبار کرتے ہیں تو وہ عزت مآب آصف غفور صاحب کا ہی بیانیہ ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ اگلے چاند کی رویت کا اعلان بھی آپ ہی کریں۔تاکہ ازقسمِ فواد چوہدری، مفتی منیب الرحمان اور مفتی پوپلزئی کی کھینچا تانی سے ہم ایسے سادہ لوح مسلمانوں کو کچھ عرصے کے لیے نجات مل جائے اور ہم بالآخر ایک پاکستان میں ایک چاند کی روشنی میں ایک ہلالی پرچم تلے ایک عید منا سکیں۔
یا پھر کوئی یہی بتا دے کہ سعودی عرب کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وہاں دوسرا چاند طلوع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کیا یہ گیدڑ سنگھی بھی تیل کی طرح ادھار مل سکتی ہے؟