امریکی بحریہ کے مطابق عمان کی سمندری حدود میں دو آئل ٹینکروں میں دھماکے ہوئے ہیں تاہم تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ دھماکے کس نوعیت کے تھے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت اس حوالے سے تحقیقات میں معاونت کر رہی ہے اور صورتحال کا جائزہ لینے کا عمل جاری رکھے گی۔
پینٹاگون کے ایک عہدیدار کا کہناہے کہ ایران ہی خلیج عمان میں تیل بردار جہازوں پر حملے کا ذمہ دار ہے۔ ایران کا یہ دعویٰ کہ اس نے تیل بردار جہازوں کے عملے کو بحفاظت نکال لیا ہے گمراہ کن ہے۔
پینٹاگون کے عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کے ایک جنگی جہاز نے ایک تیل بردار جہاز کے عملے کے 21افراد کو مدد فراہم کی۔ انہوں نے سی بی ایس سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ دونوں تیل بردار جہازوں پر حملے کی حقیقت کا پتہ لگانے کیلئے متاثرہ جہازو ںکے ملبے کا کچھ حصہ حاصل کرلے گا۔
کوکوکا کریجیئس ٹینکر اور فرنٹ الٹیئر ٹینکر کو جس مقام پر نشانہ بنایا گیا وہ خلیج عمان میں آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جہازوں میں موجود عملے میں سے کوئی بھی شخص زخمی یا ہلاک نہیں ہوا ہے۔
اطلاعات کے مطابق جمعرات کی صبح آئل ٹینکروں کی ہائی کمان کی جانب سے امریکی بحریہ سے مدد طلب کی گئی، جس پر خلیج میں موجود پانچویں امریکی بحری بیڑے نے دو ہنگامی جہاز مدد کے لیے روانہ کردیے گئے۔
روئٹرز کے مطابق ابتدائی طور پر واقعے کی تفصیلات واضح نہیں ہوسکیں تاہم بحری جہاز کے ایک آپریٹر کا کہنا ہے کہ اس کا جہاززیرآب تا رپیڈو کے گولے سے ٹکرایا جس سے دھماکہ ہوا۔ تاہم اس دعوے کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
برطانوی رائل نیوی سے منسلک میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ کا نشانہ بننے والے آئل ٹینکر کے عملے کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے، عملے کا کوئی رکن زخمی نہیں ہوا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کا کہنا ہے کہ متاثرہ بحری جہازوں کے عملے کو ایرانی ساحل پر بحفاظت منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس نے کوکوکا کریجیئس ٹینکر کے 21 ارکان اور فرنٹ الٹیئر ٹینکر کے 23 کے ارکان کو ریسکیو کیا جبکہ امریکی بحریہ کے مطابق اس نے بھی متاثرہ ٹینکرز کے عملے کے کچھ ارکان کو ریسکیو کیا ہے۔
تاحال جہازوں میں ہونے والے دھماکے ایک معمہ بنے ہوئے ہیں تاہم خطے میں تعینات امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کے مطابق دونوں جہازوں سے’ہنگامی صورتحال‘ کی کالز موصول ہوئی ہیں۔
العربیہ نیٹ کا کہنا ہے کہ برطانوی ٹریڈ گروپ کے مطابق تیل بردار جہازوں کو ایرانی ساحل سے 45 کلومیٹر دور نشانہ بنایا گیا ہے تاہم حملے کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل نہیں ہو سکیں۔
دوسری جانب اس واقعے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ مغربی خبر رساں اداروں کے مطابق آئل ٹینکرز کو پیش آنے والے واقعے کے بعد عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں دو فیصد تک اضافے ریکارڈ کیا گیا ہے۔
عالمی رہنماؤں کی تشویش
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹررز نے دو تیل بردار جہازوں پر ’حملے‘ کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دنیا ’خلیج میں بڑے تصادم‘ کو برداشت نہیں کرے گی۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور عرب لیگ میں تعاون کے حوالے سے ہونے والی میٹنگ میں کہا ’میں جہازوں پر ہونے والے حملے کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ حقیقت کو سامنے آنا چاہیے اور ذمہ داروں کا تعین پونا چاہیے۔‘
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ خلیج عمان میں تیل بردار جہازوں پر ہونے والے حملے کا جائزہ لینے کا عمل جاری رکھے گا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری سارہ سینڈرز نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ’خلیج عمان میں بحری جہازوں پر ہونے والے حملے کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ امریکی حکومت اس حوالے سے تحقیقات میں معاونت کر رہی ہے اور صورتحال کا جائزہ لینے کا عمل جاری رکھے گی۔‘
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ” جاپانی وزیراعظم کی تہران میں موجودگی کے دوران تیل بردار جہازوں پر من گھڑت حملوں کا واقعہ بہت زیادہ شکوک و شبہات کا باعث بن رہا ہے“۔
عرب اتحاد برائے یمن کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے رائٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خلیج عمان میں آئل ٹینکرز پر حملے نے ماحول بہت زیادہ گرما دیا ہے۔ وہ اس حملے کو گزشتہ برس حوثی باغیوں کی جانب سے کئے جانے والے حملے سے جوڑ سکتے ہیں۔
دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ نے خلیج عمان میں تیل کے دو ٹینکرز پر ہونے والے 'حملوں‘ کی خبروں کو انتہائی قابل فکر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ سے خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے جمعرات کو البانیا کے ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ملنے والی خبریں بے حد پریشان کن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صورتحال میں بڑھتی ہوئی کشیدگی خطرناک ہے اور اس قسم کے واقعات کشیدگی میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کشیدہ صورتحال کو ’کم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تمام اطراف کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔‘جرمن وزیرخارجہ حال ہی میں ایران اور خطے کے دیگر ممالک کے دورے سے واپس آئے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے ساحل سے تیل لے کر جانے والے چار آئل ٹینکرز کو نشانہ بنانے کے بعد پیش آیا ہے۔
امریکی اور سعودی حکام نے اس واقعے کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی تاہم تہران نے اس کی تردید کی تھی۔
آئل ٹینکرز پر حملے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کی سربراہی میں ہونے والی عالمی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جس منظم انداز میں حملے کیے گئے ان میں غالب امکان ہے کہ ’ریاستی عناصر‘ ملوث تھے۔