فواد چوہدری اور سمیع ابراہیم ایک شادی میں اکھٹے تھے۔
فیصل آباد میں نجی ٹی وی چینل 92 نیوز کے مالک میاں رشید کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب میں وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور صحافی سمیع ابراہیم کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس کے دوران وفاقی وزیر نے سمیع ابراہیم کو تھپڑ دے مارا۔
یہ واقعہ جمعے کی شب کو فیصل آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں پیش آیا۔
فیصل آباد میں ایکسپریس ٹی وی کے بیورو چیف اجمل ملک کے مطابق شادی کی تقریب میں ملک بھر سے کئی نامور صحافی، سیاستدان اور کاروباری حضرات مدعو تھے۔ اسی دوران سمیع ابراہیم اور فواد چوہدری کی ملاقات ہوئی اور چونکہ ان دونوں کی پہلے سے لڑائی چل رہی تھی لہذا ان میں تلخ کلامی شروع ہوئی جو تھپڑ پر ختم ہوئی۔
اس حوالے سے فواد چوہدری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ان کی سمیع ابراہیم سے تلخ کلامی ہوئی اور شادی کی تقریب میں انہوں نے سمیع کو تھپڑ مارا۔
دوسری طرف سمیع ابراہیم نے فیصل آباد کے تھانہ منصور آباد کے ایس ایچ او کو فواد چوہدری کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی ہے۔
درخواست میں انہوں نے لکھا ہے کہ 'میں 92 نیوز کے مالک میاں رشید کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے اپنے دوستوں کے ہمراہ فیصل آباد آیا تھا کہ تقریب کے دوران وفاقی وزیر فواد چوہدری نے مجھ پر بلا اشتعال حملہ کر دیا۔ مجھے تھپڑ مارا، گالیاں دیں اور پھر خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔'
تاہم پولیس کے مطابق وفاقی وزیر کے خلاف تاحال ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ ادھر فواد چوہدری نے بھی اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'تھپڑ مارنے پر کون سا مقدمہ درج ہوتا ہے۔'
بہرحال فواد چوہدری اور سمیع ابراہیم کے درمیان ہاتھا پائی کی خبر سوشل میڈیا پر آتے ہی جیسے کہرام مچ گیا ہو۔ ٹویٹر پر پی ٹی آئی کے کچھ ہامی فواد چوہدری کے اس عمل کا جواز پیش کر رہے ہیں تو کچھ صارفین کی جانب سے وفاقی وزیر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ابرار حسین نے سمیع ابراہیم کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ' ایک زمانہ تھا جب کرکٹ کو جنٹلمین گیم اور سیاست کو شرافت سے تعبیر کیا جاتا تھا وقت نے دونوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔'
سارہ شیخ نامی صارف نے لکھا کہ 'دوسروں کے خیالات کی قدر کرنے کی بجائے فواد چوہدری نے حد ہی پار کر دی۔ یہ مضحیکہ خیز ہے۔'
ایک ٹویٹر ہینڈل زاہد اکمل نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 'فواد چوہدری نے یہ تھپڑ تمام صحافیوں کو مارا ہے۔ اس وزیر کو کابینہ سے نکال دینا چاہیے وگرنہ پورے ملک کے صحافی سڑکوں پر نکلیں۔'
معروف صحافی عارف حمید بھٹی نے بھی ایسی اسے صحافت کے منہ پر تھپڑ قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ 'طمانچہ سمیع ابراہیم کے چہرے پر نہیں پاکستان کی صحافت اور جمہوریت کے منه پر ہے۔ صحافی اور صحافی یونین ، پریس کلب اس آمرانہ عمل پر احتجاج کرتے ہیں۔ فواد چودھری کو سزا دینا ہوگی۔ آمریت کا مقابلہ کرنے والے صحافیوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔'
جاوید اقبال فواد چوہدری کی طرفداری میں میدان میں اترے اور کہا کہ 'یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے مگر سمیع ابراہیم اپنے پروگرامز میں کافی دنوں سے فواد چوہدری کے خلاف پروپیگنڈا کیوں کررہے تھے؟ صحافیوں کو بلیک میلنگ کی بجائے اپنی نوکری ایمانداری سے کرنی چاہیے۔'
سمیع ابراہیم اور فواد چوہدری کی اصل لڑائی کیا ہے؟
ان دونوں کے درمیان تلخ جملوں کا آغاز سمیع ابراہیم کے اس بیان کے بعد ہوا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگلے چند روز میں پاکستان کے خلاف بڑی سازش ہونے والی ہے جس کی تیاریاں چل رہی ہیں۔
سمیع ابراہیم نے ایک ویڈیو میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے اور فوج کو کمزور کرنے کے لیے انڈیا اور امریکہ کے تعاون سے ایک سازش چلائی جا رہی ہے جس میں کئی دیگر سیاست دانوں سمیت تحریک انصاف کے کچھ لوگ بھی شامل ہیں۔
سمیع ابراہیم نے کہا تھا کہ عید الفطر کے بعد یہ سازش کھل کر سامنے آئے گی اور عین اسی وقت تحریک انصاف کے کچھ لوگ بھی حکومت سے دور ہونے لگیں گے جن کی قیادت فواد چوہدری کریں گے کیونکہ فواد پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
فواد چوہدری نے سمیع کے ان الزامات پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹر پر نازیبا الفاظ کا استعمال بھی کیا تھا۔
وفاقی وزیر نے سمیع ابراہیم کے امریکی پاسپورٹ کی تصویر لگاتے ہوئے لکھا تھا کہ 'ہمیں بتا رہا ہے امریکہ پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے ، ایسے منافقوں سے باخبر اور محفوظ ہونا انتہائی اہم اور ضروری ہے۔'
اس تلخ کلامی کے بعد وفاقی وزیر نے سات جون کو سمیع ابراہیم اور ان کے ادارے کے خلاف پاکستان اور امریکہ میں قانونی کارروائی کا بھی اعلان کیا۔