کامی کاتسو: جاپان کا ایسا شہر جہاں کوئی کچرا دان نہیں
کامی کاتسو: جاپان کا ایسا شہر جہاں کوئی کچرا دان نہیں
اتوار 16 جون 2019 3:00
شہر کے میونسپل حکام نے 2020 تک کامی کاتسو کو کچرے سے پاک کرنے کا ہدف رکھا ہوا ہے۔ تصویر اے ایف پی
ویسے تو میونسپل حکام شہریوں کو کچرا باہر گلی یا سڑک پر نہ پھینکنے اور اس کے لیے مخصوص کوڑا دان میں پھینکے کی ہدایت کرتے ہیں لیکن جاپان کے ایک شہر میں شہریوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھا کر اسے قابل استعمال بنانے کی فیکٹری (ری سائیکلنگ) تک لے کر جانا پڑتا ہے بلکہ اس سے پہلے کچرے اور کوڑا کرکٹ کو چھان کر 45 مختلف کٹیگریز میں تقسیم بھی کرنا پڑتا ہے۔
جاپان کے شہر کامی کاتسو کے رہائشیوں کے لیے کچرے کو ٹھکانے لگانا اتنا آسان نہیں جتنا دنیا کے دوسرے حصوں میں ہے کہ آپ نے گھر سے کچرا اٹھا کر باہر میونسپل کمیٹی کی جانب سے رکھے گئے کچرا دان میں پھینک دیا۔
کامی کاتسو میں نہ کچرا اٹھانے کے لیے کچرا دان رکھے گئے ہیں اور نہ میونسپل اتھارٹی کچرا اٹھاتی ہے۔
شہر کی میونسپل اتھارٹی نے 2020 تک کامی کاتسو کو کچرا فری بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ شہر کے باسیوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھانا پڑتا ہے بلکہ کچرے کو قابل استعمال بنانے کی فیکٹری تک لے جانے سے پہلے ہر قسم کا کوڑا کرکٹ الگ کرنا پڑتا ہے۔
میونسپل اتھارٹی نے کچرے کی 45 کیٹگریز بنائی ہیں جس میں تکیے سے لے کر ٹوتھ برش تک شامل ہیں۔
شہر کے 15 بزار باسیوں میں سے ایک ناؤکو یوکویاما کا خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’جی ہاں، کچرے کو الگ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن ایک سال پہلے جب میں یہاں منتقل ہوا تب سے میں ماحولیات کے حوالے سے حساس ہو گیا ہوں۔‘
میونسپل حکام کا کہنا ہے کہ اگلے سال تک شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کو مکمل طور پر ری سائیکل کیا جائے گا اور کوئی بھی چیز کچرا جلانے کی مشین کو نہیں بھیجی جائے گی۔
یہ پورا عمل بہت ہی محنت طلب ہے کیونکہ نہ صرف کچرے کو چار درجن کٹیگریز میں الگ کرنا پڑتا ہے بلکہ پلاسٹک کے تھیلے اور بوتلوں کو دھو کر خشک کرکے ری سائیکلنگ فیکٹری پہنچانا پڑتا ہے تاکہ ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی ہو۔
ری سائیکلنگ کی فیکٹری میں ہر کٹیگری کے لیے درجنوں باکسز رکھے گئے ہیں اور اگر کسی کچرے کے مختلف حصے مختلف کٹگریز میں آتے ہیں تو شہریوں کو ایسی اشیا کو توڑ کر اس کے حصے مخصوص کٹیگریز کے باکس میں ڈالنا پڑتا ہے۔
ایک آدمی جو پرانی الماری لے کر آیا اسے ہتھوڑے سے توڑنا پڑا تاکہ لکڑی اور لوہے کے حصے الگ کیے جا سکیں۔
جاپان کے بہت سے علاقوں میں کچرے کو الگ کرنا پڑتا ہے لیکن وہاں چند ایک کٹگریز ہیں اور زیادہ کچرا انسنریٹر نامی مشین میں جلانے کے لیے جاتا ہے۔
سنہ 2010 تک کامی کاتسو بھی جاپان کے دوسرے علاقوں سے کوئی مختلف نہیں تھا۔ سنہ 2010 میں شہر کے دو میں سے ایک انسنریٹر کو بند کرنے کا حکم جاری ہوا کیونکہ یہ دھوئیں کے اخراج کے حوالے سے مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ ایک انسنریٹر کے بند ہونے کے بعد شہر میں کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صرف ایک انسنریٹر رہ گیا جو شہر کے تمام کچرے کوجلانے کے لیے ناکافی تھا اور شہر کے میونسپل حکام کے پاس نیا خریدنے یا قریبی ٹاؤن کے انسنریٹر کو کچرے کو ٹھکانا لگانے کے لیے دینے کو پیسے نہیں تھے۔
ٹاؤن کے ایک اہلکار میدوری سوگا کے مطابق اس وقت ہم نے سوچا کہ اگر کچرے کو جلا نہیں سکتے تو اسے ری سائیکل کریں کیونکہ ری سائیکل کرنا جلانے سے سستا پڑتا ہے۔
کامی کاتسو شہر علاقے کے تمام کچرے کو ری سائیکل کرنے کے ہدف کے قریب ہے اور 2017 میں شہر کے 286 ٹن کچرے میں سے 80 فیصد کو قابل استعمال بنایا گیا جوکہ ملکی سطح پر ری سائیکلنگ کے 20 فیصد کے شرح سے بہت زیادہ ہے۔
جاپان میں 20 فیصد کے بعد بچ جانے والے کچرے کو جلایا جاتا ہے کیونکہ ملک کے پہاڑی علاقے کچرے کو ڈمپ کرنے کے لیے ناموزوں خیال کیے جاتے ہیں۔
جاپان دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں سب سے کم کچرا پیدا کرتا ہے لیکن جاپان امریکہ کے بعد سب سے زیادہ پلاسٹک ویسٹ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ماضی میں جاپان پلاسٹک کے کچرے کو ری سائیکلنگ کے لیے چین ایکسپورٹ کرتا تھا لیکن جب سے بیجنگ نے پلاسٹک ویسٹ کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے تب سے جاپان کے مختلف شہروں میں میں پلاسٹک ویسٹ کے ڈھیر جمع ہوتے جارہے ہیں۔
لیکن کامی کاتسو کے بعض شہریوں کا خیال ہے کہ کامی کاتسو کا ماڈل ہر جگہ کام نہیں کر سکتا۔ یوکو یاما کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل کامی کاتسو میں اس لیے کامیاب ہیں کہ شہرصرف 15 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ بڑے شہروں میں اس ماڈل کو اپنانا اور اس کو کامیاب بنانا بہت مشکل ہے۔‘