معاشی مشکلات کے باوجود فلسطینی عوام کو سیاسی حل کی تلاش
معاشی مشکلات کے باوجود فلسطینی عوام کو سیاسی حل کی تلاش
پیر 24 جون 2019 3:00
فلسطینی حکومت نے ایک لاکھ سے زائد ملازمین کی تنخواہیں روکنے کا حکم دیا ہے۔ تصویر: اے ایف پی
فلسطین کے علاقے غربِ اردن میں واقع ایک گودام میں غیر فروخت شدہ بسکٹوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے جس سے ملک کے بدتر اقتصادی حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر ان سب کے باوجود فلسطینیوں نے امریکہ کے معاشی معاہدے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
مازین سنوکروٹ جن کی کمپنی میں کھانے پینے کی مختلف اشیا تیار کی جاتی ہیں، کا کہنا ہے ’پیسے ہمارے لوگوں کی عظمت اور ہمارے مقصد کی صداقت کا متبادل نہیں ہیں‘
مازین سنوکروٹ فلسطین کے سابق وزیر خزانہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ انہیں اس ہفتے امریکہ کی جانب سے بحرین میں منعقد کی جانے والی معاشی کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔
فلسطین کئی دہائیوں کی جنگ اور امن کی ناکام کوششوں کے بعد اب اگر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر اتفاق کر لیتا ہے تو امریکہ کا خیال ہے کہ فلسطین کو اس سے بڑا معاشی فائدہ ہوگا لیکن ہفتے کو امریکہ کی جانب سے معاشی منصوبے کی تفصیلات سامنے آتے ہی اسے فلسطینی حکومت کی جانب سے مسترد کر دیا گیا۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے مناما میں ہونے والی ملاقات میں عدم شرکت کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ سیاسی صورتحال سے پہلے معاشی صورتحال پر بحث نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے بقول فلسطین کے مسئلے کا جب تک کوئی سیاسی حل تلاش نہیں کیا جاتا تب تک وہ کسی معاشی منصوبے کو قبول نہیں کریں گے۔
اسی طرح خراب معاشی حالات کے باوجود فلسطین کے تقریباً تمام بڑے کاروباری لوگ اس کانفرس کا بائیکاٹ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے رملہ میں واقع سنوکروٹ کی فیکٹری میں بسکٹ تیار کرنے والی ہر تین میں سے دو مشینیں گذشتہ ایک ماہ سے بند پڑی ہیں۔
فیکٹری کے پروڈکشن ہیڈ مجد سنوکروٹ کہتے ہیں کہ پہلے جو لوگ بسکٹ کے یومیہ دو پیکٹ خریدنے کے قابل تھے اب وہ یومیہ ایک یا کوئی بھی پیکٹ نہیں خرید رہے۔
فلسطین کی معیشت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے جبکہ غزہ کی پٹی میں مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں آٹھ فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ ورلڈ بینک نے حالیہ دنوں میں فلسطین کی معاشی صورتحال کو غیر مستحکم قرار دیا ہے کیونکہ غربِ اردن اور غزہ کی پٹی میں بیروز گاری 30 فیصد تک بڑھی ہے۔ لگ بھگ ایک دہائی سے اسرائیلی ناکہ بندیوں کی وجہ سے مفلوج رہنے والی والی غزہ کی پٹی میں بیروزگاری کی شرح گذشتہ برس 52 فیصد تھی۔
مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سفیر جیسن گرین بلاٹ کے مطابق ’مناما کانفرنس کا مقصد فلسطینی اور علاقائی معیشت کی ناقابل یقین صلاحیت کے سامنے کھڑی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے تاہم سی این این کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں وہ خود یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان سیاسی حل کے بغیر کوئی بھی معاشی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔
امن منصوبے کے سیاسی حل پر بات چیت رواں برس ستمبر میں ہونے والے اسرائیلی انتخابات تک ملتوی ہونے کا امکان ہے۔
تاہم فلسطینیوں نے 50 ارب امریکی ڈالرز کی مالیت کے اقتصادی منصوبے کو اس کے معاشی پہلوؤں کی اشاعات سے قبل ہی مسترد کر دیا ہے۔
فلسطینیوں کا ماننا ہے کہ امریکہ اسرائیل کی طرف داری کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کی اس سوچ کے پیچھے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ حالیہ فیصلہ بھی ہے جس کے بعد فلسطینوں کے لیے لاکھوں ڈالرز کی امداد بند کر دی گئی تھی۔
فلسطین کا کہنا ہے کہ خراب معاشی صورت حال کی ذمہ دار خود اسرائیلی حکومت ہے جس نے گذشتہ کئی دہائیوں سے لوگوں کی نقل و حرکت پر بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دونوں ممالک کی انتظامیہ کے درمیان حالیہ مہینوں میں بڑھنے والی دوری کے سبب فلسطینی حکومت کو لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔
اسی طرح بجٹ میں کمی کے باعث فلسطینی حکومت نے ایک لاکھ سے زائد ملازمین کی تنخواہیں روکنے کا حکم دیا ہے۔
بیشتر فلسطینی کاروباری افراد کے اسرائیل کے ساتھ اچھے مراسم ہیں تاہم وہ بحرین کانفرنس میں شرکت کی صورت میں سامنے آنے والے سرکاری اور عوامی ردعمل سے خائف ہیں۔ اس لیے کانفرنس میں صرف چند سرمایہ کاروں کی شرکت ہی متوقع ہے جن میں سے ایک اشرف جباری بھی ہیں۔
اشرف جباری غرب اردن کے علاقے میں اسرائیلی باشندوں کے ساتھ متنازع تعلقات رکھنے کی وجہ سے خاصے مشہور ہیں۔
اقتصادی ماہر ناصرعبدالکریم کے مطابق بحرین کانفرنس سایست سے بچتے ہوئے معاشی معاملات پر دھیان دینے کی ایک کوشش ہے تاکہ اس سے خوشحالی آئے اور خوشحالی سے امن، تاہم زیادہ تر فلسطینی سرمایہ کاروں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت سے انہیں نقصان ہوگا۔