اچھا سیاستدان ایسے نہیں بنا جا سکتا، سہیل وڑائچ کا کالم
اچھا سیاستدان ایسے نہیں بنا جا سکتا، سہیل وڑائچ کا کالم
منگل 25 جون 2019 3:00
سہیل وڑائچ
عرب جلاوطنی سے لے کر اب تک مریم نواز اپنے والد کے ساتھ روزانہ چار سے پانچ گھنٹے گزارتی رہی ہیں۔
مریم نواز جب سے سیاست میں آئی ہیں وہ جمہوری بیانیے کو جارحانہ انداز میں بیان کرتی رہی ہیں۔ ان کی زندگی کا پہلا سیاسی بیان جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2001ء میں سامنے آیا تھا جب نواز شریف، حسین نواز اور شہباز شریف پابند سلاسل تھے۔ مریم نواز شریف نے اپنے اس سیاسی بیان میں بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے انداز سیاست کو سراہا تھا اور اپنے جمہوری بیانیے کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست سے جوڑنے کی کوشش کی تھی ۔
اس بیان سے آج تک کے 20 سال میں مریم نواز کبھی مکمل خاموش اور کبھی پس پردہ رہیں اور کبھی کبھی سب سے بڑھ کر بولتی رہیں مگر وہ جب بھی بولیں اپنے جمہوری بیانیے پر قائم رہیں۔
خاموشی کے لمبے وقفوں کو آپ مصلحت کہہ لیں یا سیاست کے نشیب و فراز کا نام دیں۔ مریم نواز کی 20 سالہ سیاست میں سب سے بڑی خامی یہ رہی ہے کہ اس میں تسلسل نہیں ہے ان کے والد مشکل میں ہوں، جیل میں ہو یا کسی امتحان سے گزر رہے ہوں تو وہ متحرک ہو جاتی ہیں۔ ان کا بیانیہ تیز اور بہادرانہ ہو جاتا ہے۔ ان کے والد مشکل سے نکل آئیں، جیل سے رہائی ہو جائیں یا امتحان سے گزر جائیں تو مریم نواز خاموشی کی چادر اوڑھ کر والد کی خدمت میں جت جاتی ہیں۔ اچھی بیٹیاں ایسی ہوتی ہیں مگر اچھا سیاستدان ایسے نہیں بنا جا سکتا۔ گزشتہ 20 سالوں میں وہ اپنی والدہ کلثوم نواز کی ہوبہو نقل کرتے ہوئے نواز شریف کے مشکل وقت میں ہی باہر نکلتی ہیں۔ کلثوم نواز کا بھی یہی انداز سیاست تھا مگر دونوں کے چیلنجز مختلف ہیں۔
کلثوم اپنے شوہر کی نائب کی حیثیت سے سیاست کرتی تھیں مگر مریم کو بطور جانشین سیاست کرنی ہے۔ کلثوم نواز کی سیاست سے طویل غیر حاضری کو کوئی محسوس نہیں کرتا تھا کیونکہ نواز شریف ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ جبکہ مریم جانشین ہیں اور ان کی غیرحاضر اورخاموش سیاست میں ان کے نمبر کم کردیتی ہے۔
گزشتہ 20 سالوں میں مریم نواز اپنے والد کے سب سے قریب رہی ہیں۔ 2000ء میں سعودی عرب جلاوطنی سے لے کر اب تک مریم نواز اپنے والد کے ساتھ روزانہ چار سے پانچ گھنٹے گزارتی رہی ہیں۔ نواز شریف سر شام ہی سب مصروفیات ختم کرکے گھر والوں سے گپ شپ کے عادی بن چکے ہیں اور اپنی اس عادت کی وجہ سے وہ بہت سے سیاسی اور خاندانی معاملات سے لاتعلق بھی ہو گئے تھے۔
جلا وطنی نفسیاتی پیچیدگیاں بھی پیدا کر دیتی ہے۔ نواز شریف اور ان کے اہل خاندان جلاوطنی کے دوران شک و شہبات کے اسیر ہو چکے ہیں۔ غیروں پر ان کا اعتماد کم ہو گیا یوں ان کا حلقہ مشاورت سکڑتے سکڑتے خاندان کے افراد تک محدود ہوگیا۔ ان 20 سالوں کا مثبت پہلو یہ رہا کہ نوازشریف کے طویل تجربہ حکمرانی اور سیاست کے نچوڑ سے مریم نواز نے بہت کچھ سیکھا والد سے قربت کی وجہ سے وہ نواز شریف کے دل کی بات اور خواہشات کو اچھی طرح جاننے کے قابل ہوگئیں پھر انہوں نے اپنی وفا داری اور خدمت سے نہ صرف والدہ کے خلاء کو پورا کرنے کی کوشش کی بلکہ اپنے دو جلاوطن یا (ملزم) بھائیوں کا رول بھی خود ہی سنبھال لیا۔
مریم نواز والد کے دل میں چھپی مزاحمت کی نمائندہ ہیں۔ والد بظاہر انہیں تحمل برداشت اور دھیمے لہجے کی تلقین کرتے ہیں لیکن دل ہی دل میں وہ مریم کی جارحیت کو سراہتے بھی ہیں۔ مریم اگر مفاہمت کی سیاست کرتی بھی ہیں تو اس میں کامیابی مشکل ہے کیونکہ ان کے چچا شہبازشریف مفاہمت کی ڈفلی بجانے کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔
مریم اور نواز شریف دونوں کو علم ہے کہ اگر آپ کی سیاست میں جارحیت نہ ہو، آپ دم خم کا مظاہرہ نہ کریں تو کوئی طاقتورآپ سے مذاکرات بھی نہیں کرتا۔ حالیہ دنوں میں اگر قومی اسمبلی میں ہنگامہ نہ ہوتا تو آصف زرداری کا پروڈکشن آرڈر تک جاری نہ ہوتا۔
سچ تو یہ ہے کہ بینظیر بھٹو بھی عملی سیاست میں تب آئیں جب ان کے والد مشکل میں تھے مگر ان کی سیاست میں تسلسل تھا۔ دوسرا انہوں نے والد کی محبت اور عوام کی محبت کو ملا کر سیاست کی۔ مریم نواز کو بھی اپنی سیاست کا مرکز نگاہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ عوام کو بنانا ہوگا، تسلسل کے ساتھ سیاست کرنا ہوگی۔ یہ نہیں کہ والد کی جگہ بھرنے کے لیے آگے آئیں والد واپس آئے تو وہ گھر میں بیٹھ جائیں۔
مریم نواز ٹیلنٹڈ ہیں، والد سے بہت کچھ سیکھ چکیں، کچھ زمانے کی گردش نے سکھا دیا ہوگا اور جو باقی رہ گیا وہ سیاست کے نشیب و فراز نے دکھلا دیا ہوگا۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ اپنے جارحانہ بیانیے سے کسی طرح ن لیگ کو زندہ رکھتی ہیں؟ وہ والد کی سیاست کو زندہ رکھتے ہوئے کونسی ایسی حکمت عملی بناتی ہیں جس سے ان کے والد جیل سے باہر آ سکیں اور ان کے خاندان کی سیاست بھی سیدھی ہو جائے۔ وہ مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے مزید ہزیمت اختیار نہیں کرنا چاہتیں اور ان میں یہ حوصلہ ہے کہ وہ بہادری کا راستہ اختیار کریں اور جارحانہ بیانیے سے فریق مخالف کو مفاہمت پر مجبور کریں ۔