پاکستان سیاسی، سماجی و نظریاتی لحاظ سے کہاں سے چلا تھا اور کہاں پہنچ گیا۔
یہ داستان جناح صاحب کے اس وعدے سے شروع ہوئی تھی کہ مملکتِ خداداد میں آئین و قانون کی حکمرانی ہو گی اور تہتر برس میں یہاں تک پہنچ گئی کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی فیصل واؤڈا آئین و قانون بنانے والی قومی اسمبلی میں سپیکر کے منہ پر کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں اگر پانچ ہزار لوگوں کو گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا جائے اور پھر انہیں گولی مار دی جائے تو ملک سدھر جائے گا۔
اور سپیکر صاحب یہ بات سننے کے بعد بھی وزیر صاحب کا مائیک بند کرنے سے قاصر ہیں۔
کوئی آج سوچ سکتا ہے کہ اسی پاکستان میں سات عشرے پہلے شبِ برات، حجتہ الوداع، عید الفطر، یومِ حج، عید الضحی، یکم محرم، عاشورہ، آخری چہار شنبہ اور عید میلاد النبی کے ساتھ ساتھ کرسمس، ایسٹر، بیساکھی، دیوالی، ہولی اور دسہرا کا دن بھی مذہبی تعطیلات میں شمار تھا۔
پچیس دسمبر سے یکم جنوری تک آٹھ دن سرکاری کام بند رہتا تھا۔ ان آٹھ دنوں میں کرسمس، یومِ قائدِ اعظم اور نئے سال کی چھٹی بھی نمٹ جاتی تھی۔تئیس مارچ چھٹیوں کے سرکاری کیلنڈر میں شامل نہیں تھا، البتہ موسم بہار کی مناسبت سے بسنت کی سرکاری چھٹی ہوتی تھی
کسی کو یاد ہے کہ 1953 کے مذہبی فسادات کے بعد لاہور میں جب مارشل لا لگا تو اقبال کے تصورِ اسلام اور ملا کے تصورِ اسلام کے موازنے پر مبنی بزمِ اقبال کی شائع کردہ خلیفہ عبدالحکیم کی کتاب ’اقبال اور ملا ‘ مارشل لا انتظامیہ کی جانب سے شہر میں تقسیم کی گئی۔شائد انتظامیہ کا خیال تھا کہ اس سے تنگ نظری کا خاتمہ ہو جائے گا۔
انیس سو اٹھاون میں پہلا ملک گیر مارشل لا لگا۔انیس سو ساٹھ کے انگریزی اخبارات میں شائع ہونے والے ایک اشتہار سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کی ایک بیلی ڈانسر کراچی آئی ہے اور ریو سینما کے اسٹیج پر حشر سامانیاں بکھیر رہی ہے۔ انگریزی اخبارات میں جانی واکر کا اشتہار تواتر سے شائع ہوتا تھا۔اس کی ٹیگ لائن تھی ’دی فیشن ایبل ڈرنگ ایوری وہئیر‘۔
محکمہ سیاحت کے پوسٹرز میں صرف بادشاہی مسجد ہی نہیں موہن جو دڑو کی ڈانسنگ گرل اور فاقہ زدہ بدھا کے گندھارا مجسمے کا عکس بھی پاکستان کی ہزاروں برس پر پھیلی تہذیبی تاریخ کی نمائندگی کرتا تھا۔
پی آئی اے کی فضائی میزبانیں فرنچ ڈیزائنر پیغ کاغدیں کی بنائی دلکش یونیفارم میں پاکستان کی بین الاقوامی پہنچ کا استعارہ تھیں۔
آج ایک پاکستانی دیسی بینڈ کی بہت شہرت ہے جس میں سب کی سب لڑکیاں ہیں مگر کتنوں کو یاد ہے کہ انیس سو اکہتر میں کراچی میں ’پاپ فیسٹیول سیونٹی ون منعقد ہوا‘ اس میں تین دیسی
گٹارسٹس نے بھی پہلی بار ایک ساتھ پرفارم کیا۔1973 میں شائع ہونے والی ایک مقامی سیاحتی گائیڈ میں کراچی کے نائٹ لائف مراکز کا تعارف کچھ یوں کروایا گیا۔
اواےسس تاج ہوٹل، ترکی کی مہمان رقاصہ اینجلیک اور نادیہ کے علاوہ پاکستان کے لوک رقص اور جدید ڈانس پرفارمنسز۔ہوٹل امپیریل مولوی تمیز الدین خان روڈ کے ڈانس فلور پر بیلے ڈانسر سہیلا اور غیر ملکی رقاصوں کو فن کا مظاہرہ کرتے دیکھیے۔
ہوٹل ایکسیلسئر پینٹ ہاؤس نائٹ کلب میں مس چنٹلی اور بیروت سے آئی بیلے رقاصہ گمال اور دیگر رقاصائیں ۔پیلس ہوٹل کے لاگورمے میں کلاسیکی ڈانسر نشی اور غیر ملکی رقاصوں کی لاجواب پرفارمنس (علاوہ جمعہ) ۔شاہراہِ لیاقت پر کے ایم سی مارکیٹ کے نزدیک روما شبانہ کلب میں کلاسیکل اور لوک پرفارمنس (علاوہ جمعہ)۔
تین برس قبل ندیم فاروق پراچہ کا ایک مضمون ’پاکستان کی تصویری تاریخ‘ اخبار ڈان میں شائع ہوا۔ اس میں دسمبر انیس سو چھہتر میں خیبر پختونخوا کے ضلع دیر کی ایک دکان کی تصویر بھی ہے۔ دکان کے بورڈ پر لکھا ہے ’انٹرنیشنل آرمز اینڈ حشیش سٹور‘ اور اردو میں لکھا ہے ’چرس سٹور‘۔
پھر آ گئی اسی کی دہائی اور پاکستان کا ’جدید دور‘۔ افغانستان میں سوویت یونین سے لڑنے کے خواہش مند رضاکاروں کی ریکروٹمنٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے پوسٹرز بھی امریکہ سے آنے لگے۔
ایک سیاہ ریش مجاہد کے ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے بلند ہاتھ میں کلاشنکوف۔ اوپر لکھا ہے اللہ اکبر اور مجاہد کے پیروں تلے سرخ روسی ریچھ چاروں شانے چت پڑا ہے۔
آج پاکستان میں یہ بھی چلچلاتی خبر ہے کہ برٹش ایئرویز نے آٹھ برس بعد پاکستان سے اپنی پروازیں بحال کر دیں۔ مگر نئی نسل نہیں جانتی کہ اب سے 30 برس پہلے تک اسی پاکستان میں میں پی آئی اے کے علاوہ روزانہ 30 دیگر ایئر لائنز کی پروازیں کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرتی تھیں۔
ستائیس جنوری انیس سو نواسی کو سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی نے خبر دی کہ اسسٹنٹ کمشنر راولپنڈی نے ایک مقامی وکیل کی جانب سے پی ٹی وی کے پروگرام ’میوزک ایٹی نائن‘ کے خلاف دائر درخواست کو داخلِ دفتر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ معاملہ اسلام آباد کی عدالت کے دائرہِ اختیار میں آتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایک مقامی وکیل بابر اعوان ایڈووکیٹ نے چیئرمین پی ٹی وی اسلم اظہر، میوزک ایٹی نائن کے پروڈیوسر شعیب منصور اور لندن میں مقیم گلوکارہ نازیہ حسن اور گلوکار زوہیب حسن کے خلاف درخواست میں کہا کہ مذکورہ پروگرام میں غیراخلاقی گفتگو اور فحش انداز اختیار کرنے کے سبب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور عوام الناس میں اشتعال پھیل رہا ہے۔لہذا مذکورہ پروگرام کو بند کر کے ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے۔
دو دن پہلے خبر آئی کہ نیب کی احتساب عدالت نے ڈاکٹر بابر اعوان کو نندی پور پاور پروجیکٹ ریفرنس میں بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا ہے۔
نیب نے اپنے ریفرنس میں کہا تھا کہ بابر اعوان جب 2008 سے 11 تک وزیرِ قانون تھے تو انہوں نے نندی پور پاور پروجیکٹ کی قانونی کلیرنس نہ دے کر قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔
احتساب عدالت نے دوسرے ملزم سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی کو بری نہیں کیا مگر شریک ملزم بابر اعوان چھوٹ گئے۔جب بابر اعوان کے خلاف نیب نے گذشتہ ستمبر میں ریفرنس دائر کیا تو آپ عمران خان کی کابینہ میں مشیر تھے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ بابر اعوان وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ میں ایک بار پھر فیصل واؤڈا کے برابر بیٹھے ہوں گے۔