Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’موبائل فونز پر ٹیکس ختم کیا جائے‘: دکانداروں کے مظاہرے

پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور سندھ میں موبائل فونز کے کاروبار سے وابستہ تاجر اور ان کی تنظیمیں فونز پر لگنے والے نئے ٹیکسوں کی وجہ سے حکومت مخالف مظاہرے کر رہے ہیں۔
کوئٹہ، پاک افغان سرحدی شہر چمن سمیت بلوچستان کے بیشتر شہروں میں چند ماہ قبل تک سمگل شدہ موبائل فون کی خرید و فروخت کا کاروبار منافع بخش تصور کیا جاتا تھا مگر پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی جانب سے موبائل کی رجسٹریشن کا عمل شروع کرنے کے بعد سے سمگل شدہ موبائل فون کا کاروبار بند ہو رہا ہے۔ 
جمعرات اور جمعے کو کوئٹہ، چمن اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں موبائل فون کے کاروبار سے وابستہ دکانداروں نے پی ٹی اے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ انہوں نے ٹیکس ختم یا پھر کم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
بیس ہزار روپے کے موبائل فون پر آٹھ ہزار ٹیکس
موبائل فونز رجسٹرڈ کرنے کا طریقہ کار وضع
 
کوئٹہ کے عبدالستار روڈ پر واقع ایک موبائل کی دکان کے مالک محمد قاسم نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ پہلے متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک سے استعمال شدہ موبائل خرید کر افغانستان کے راستے کوئٹہ لاتے تھے اور یہاں اچھے منافع پر فروخت کرتے تھے مگر پی ٹی اے کی جانب سے ٹیکس جمع نہ کرانے والے درآمد شدہ موبائل فون کی بندش کی وجہ سے لوگوں نے بیرون ملک سے موبائل لانے کا کام چھوڑ دیا ہے۔
’ہمیں سب سے اچھا منافع باہر سے لائے گئے موبائل فون سے ملتا تھا۔ موبائل کمپنیاں تو صرف ایک یا دو فیصد منافع دیتی ہیں اس سے دکان کا کرایہ بھی پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘ 

آل بلوچستان موبائل ایسوسی ایشن کے صدر محمد صدیق یوسفزئی کے مطابق کوئٹہ میں فیکٹریاں نہیں ہیں یہاں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ موبائل کا کاروبار یا پھر رکشہ چلانا ہے۔

آل بلوچستان موبائل ایسوسی ایشن کے صدر محمد صدیق یوسفزئی کے مطابق کوئٹہ میں فیکٹریاں نہیں ہیں یہاں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ موبائل کا کاروبار یا پھر رکشہ چلانا ہے۔ آپ کو شہر کی ہر مارکیٹ میں موبائل کی دکانیں نظر آئیں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ پانچ سے 10 لاکھ روپے میں ہر کوئی یہ کاروبار شروع کرسکتا ہے۔ کسی نے قرض لیکر اور کسی نے گھر کے زیور بیچ کر یہ کاروبار شروع کیا تھا اور گھر چلارہے تھے مگر حکومت بھاری ٹیکسز لگا کر روزگار چھین رہی ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے روزگار نہیں مانگ رہے مگر ہمارا جو روزگار چل رہا ہے اسے توچلنے دیں ۔ ہم ملک کو ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اس کیلئے ہم ٹیکس دیں گے مگر ٹیکس کی بھی ایک حد ہونی چاہیے ۔ دس ہزار روپے کے موبائل پر بارہ ہزار روپے ٹیکس بالکل بھی مناسب نہیں۔ 
محمد صدیق کے بقول پی ٹی اے کی ہدایت پر ہم نے 15 جنوری سے پہلے جتنے موبائل تھے ان کی رجسٹریشن کرادی مگر دو ماہ بعد رجسٹرشدہ موبائل بھی بند ہونا شروع ہوگئے۔ ورانٹی والے سیٹ جن پر پہلے سے ہی ٹیکس ادا کیا جاچکا ہے وہ بھی بند ہورہے ہیں۔ ہماراکاروبار دن بہ دن بیٹھ رہا ہے۔ مایوسی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ موبائل کے کاروبار سے لاکھوں خاندان چل رہے ہیں وہ سب مایوس ہوگئے ہیں۔
کوئٹہ کی ہاشمی مارکیٹ کی ایک موبائل شاپ کے مالک علاﺅ الدین کاکڑ نے بتایا کہ تاجروں کے پیسے ڈوب رہے ہیں سارے پریشان ہیں دکانیں بند کررہے ہیں ۔ دکاندار کے گاہک کے ساتھ جھگڑے بڑھ رہے ہیں موبائل خریدنے والے ہر روز آتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ میرا موبائل بند ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے ہر تین ماہ بعد بیرون ملک جاکر استعمال شدہ موبائل خرید کر لاتے تھے اور کوئٹہ میں فروخت کرتے تھے مگر اب گزشتہ تین ماہ سے بیرون ملک نہیں گئے کیونکہ ہمارے پہلے سے پڑے ہوئے موبائل بھی فروخت نہیں ہورہے۔ دکان میں سینکڑوں موبائل پڑے ہیں مگر چند ایک کے علاوہ سب غیر رجسٹرڈ ہیں۔

رضوان کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد سے زائد صارفین استعمال شدہ موبائل استعمال کر رہے ہیں۔ تصویر: اے ایف پی

علاﺅ الدین کاکڑ کے مطابق عوام 10 ہزار روپے کے موبائل پر 12، 15 ہزار روپے ٹیکس کہاں سے لاکر دے۔ پہلے سے ہی عوام بجلی اور گیس کے بلوں سمیت ہر چیز پر ٹیکس دے دے کر پریشان ہیں اب جیب کا ایک موبائل بھی بند کیا جارہاہے۔ عوام اتنے بھاری ٹیکس نہیں دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے مناسب ٹیکس لگائیں ہم دینے کیلئے تیا رہیں ۔ کوئٹہ میں موبائل پر ٹیکس جمع کرانے کیلئے کوئی مرکز بھی نہیں ۔ ایف بی آر والے کہتے ہیں کہ پی ٹی اے والوں کے پاس جائیں اور پی ٹی اے والے ہمیں ایف بی آر کے دفتر بھیجتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس جمع کرانے کے زیادہ سے زیادہ مراکز بنائے جائیں تاکہ لوگوں کو مشکلات نہ ہوں۔
موبائل کے ایک گاہک محمد احمد خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ میں نے سام سنگ کا جے سکس موبائل جب خریدا تو اس وقت وہ رجسٹرڈ تھا اور اب یہ غیر رجسٹرڈ بتارہے ہیں۔ چھبیس ہزار روپے کے موبائل پر 28 ہزار900 روپے ٹیکس جمع کرانے کا کہا جارہا ہے۔ اس موبائل کا اب کیا کیا جائے اس کو توڑ دوں یا اس پر ٹیکس دوں، اب دوبارہ فروخت بھی نہیں ہورہا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو اقدام اٹھایا ہے وہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے اگر کسی نے محنت کرکے کوئی موبائل خریدا ہے اور قیمت سے زیادہ ٹیکس لیا جارہا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
کراچی الیکٹرانک ڈیلرز ایسویشن کی طرف سے پی ٹی اے کے جانب سے استعمال شدہ موبائل فونز پر ڈیوٹی عائد کرنے کے خلاف کئی روز سے احتجاج جاری ہے۔
ایسوسی ایشن کے صدر محمد رضوان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ابھی شہر بھر کی موبائل مارکیٹس میں پرامن احتجاج کی کال دی گئی ہے، جبکہ جمعے کی سہ پہر تین بجے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ہڑتال کا اعلان کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا ’ہڑتال کی کال واپس لینے کی صرف یہی صورت ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات تسلیم کرے۔‘
سرینا موبائل مارکیٹ کے ڈیلر محمد خرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ اور دیگر دکاندار نماز جمعہ کے بعد مارکیٹ جائیں گے اور وہاں حالات دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ دکان کھولنی ہے یا نہیں۔  
رضوان عرفان کے بقول پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی ان کے کاروبار میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ پی ٹی اے این او سی دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے جس کی وجہ سے ان کے کاروبار کا حرج ہو رہا ہے۔ تاجر ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں لیکن پی ٹی اے اور متعلقہ ادارے ان کو سہولیات دینے کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ 

شیئر: