Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نوکریاں داؤ پر لگا کر اگلا ورلڈ کپ دیکھیں گے‘

وہ ٹاس جیتنے کی امید، اور وہ 500 سکور بنا کر سیمی فائنل میں کوالیفائی کرنے کا خمارختم ہوا۔
جمعے کو ورلڈ کپ کی حقیقت انجام کو پہنچی۔ جب ہماری ٹیم کے بالرز فارم میں آ گئے، بیٹنگ لائن انسان کی بچی بن گئی اور ٹیم نے میچ جیتنے شروع کر دیے، تو ہماری ٹیم ورلڈ کپ سے آؤٹ ہو گئی۔
جو بانوے میں ہوا وہ بھی صرف پاکستان کے ساتھ ہی ہو سکتا تھا، اور جو 2019 میں ہوا وہ بھی پاکستان کے ساتھ ہی ہو سکتا تھا۔ جو پاکستان ہے، وہ کوئی اور نہیں اور نہ ہوگا۔ میں آج شا ید جذباتی بھی کافی ہوں کیونکہ ایک بار پھر ، میرا یقین مجھے لے ڈوبا۔ وہ یقین جس کا ذکر بازد خان بھی اکثر کرتے ہیں۔
 اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کی کارکردگی ٹھیک تھی ورلڈ کپ 2019 میں؟ تو میں کہوں گی یہ ایسے ہے جیسے مجھے چونسے کا لارا لگا کر انور رٹول آم دے دیا ہو۔
ہاں ٹھیک ہے پاکستانی آم ہے ، دنیا کا بہترین آم ہے پر چونسا تو نہیں ہے نہ۔ اسی طرح ، ہاں ہم واقعی کہاں سے کہاں پہنچ گئے، لیکن آخرمیں رہے تو انور رٹول ہی۔
یہ زندگی چونسا ہو بھی سکتی تھی ، پر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے ، چونسا نہیں اور چونسے کی جستجو بھی نہیں۔ لیکن اس انور رٹول آم نے اک امید دی ہے۔ یہ چونسا بن بھی سکتا ہے۔ لیکن محنت چاہیے،لگن چاہیے اور کچھ تبدیلیاں بھی!

وہ 105 پر آل آوٹ ہونا اور پھر دنیا کی بہترین ٹیم انگلینڈ کو ہرانا، وہ شاہین کا کچھ نہ کرنے سے 4 وکٹیں، وہ عماد وسیم کے نکما ہونے سے افغانستان کے خلاف جتوانا، وہ عامر عامر کی آوازیں،وہ یقین، وہ ہر بار میچ میں یقین، یقین اس بات کا کہ اس ٹیم کا کچھ پتہ نہیں۔
وہ یقین اور یہ ٹیم ، کوئی کیسے محبت نہ کرے؟ میرے ٹوئٹر اکاونٹ کو دیکھیں تو ایسا ہی لگے گا کہ میری ٹیم میرا شریکا ہے اور یہ میری زمین پر قبضہ کر کے بیٹھے ہیں۔ میں مانتی ہوں کے کسی کسی وقت مجھے شدید غصہ چڑھا اس ٹیم پر ، کئی بار ٹی وی بند کیا ،کئی بار کمرہ چھوڑ کر باہر چلی گئی ، کئی بار واٹس ایپ گروپ میں اپنے دوستوں سے کہا کہ مجھے گولی مار دو، لیکن وہ یقین ہی تھا جس نے اس ٹیم کا ساتھ دینے پر مجبور کیا۔
 میں تندور پر گئی یا کہیں اور ، ہر جگہ لوگوں کو اسی یقین نے ٹی وی اور موبائل کے ساتھ صمد بونڈ کی طرح جوڑا ہوا تھا۔ ایک آدھی بار تو تندور والے نے غلط روٹیاں بھی دی لیکن میں نے اسی یقین کے صدقے اسے کچھ نہیں کہا۔
ورلڈ کپ کے دوران مجھے اپنی قوم پر صرف پیار ہی آیا۔ دو مرتبہ میری گاڑی ٹھکی لیکن میں نے یہی کہا کوئی بات نہیں، دعا کریں ورلڈ کپ جیت جائیں۔۔ وہ پاکستانی جو انگلینڈ جا کر میچ دیکھتے رہے ، پہلے تو آپ مجھے کچھ پیسے دیں تاکہ میں کارنر پلاٹ لے سکوں۔ لیکن مذاق کے علاوہ ، آپ کی یہ سپورٹ اور سٹیڈیم میں ہونا ، ہماری ٹیم کو کہاں سے کہاں لے گیا۔ 
 ہمیں کہا گیا تھا کچھ مہینے پہلے کہ مثبت رپوٹنگ کریں۔ تھوڑی مثبت باتیں ہو جائیں۔ جوان کھلاڑی جیسے شاہین ، عامر اور بابر اعظم کو اس ورلڈ کپ میں بے پناہ اعتماد ملا ہے۔ انکی پرفارمنس سے ثابت ہوا ہے ان کا مستقبل کسی اچھی قیادت کے نیچے مزید روشن ہو گا۔
سب سے مثبت بات اس ورلڈ کپ کی یہ رہی کہ دامادِ ہند شعیب ملک کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں رہی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت دامادِ ہند شعیب ملک کو گھر جمائی بنالے۔

 حفیظ بھی اس ورلڈ کپ میں صرف یہی ثابت کرتے رہے کہ ’میں پندرہ سال کے تجربے سے آپ کو مسلسل ناکام ہو کر دکھاﺅں گا۔‘
ایک پلیئر جس کو دیکھ کر میرا دل رویا ہے وہ ہیں وہاب ریاض۔ اور کوئی ہو نہ ہو لیکن وہاب ریاض اس ورلڈ کپ ٹرافی کے صیح حق دار تھے۔
جب وہ ٹیم میں شامل ہوئے تھے میں نے بہت رونا پیٹنا ڈالا تھا۔ لیکن جو پرفارمنس انہوں نے دے چھوڑی ہے ورلڈ کپ میں ، اسکے بعد وہاب ریاض ورلڈ کپ جیت چکے ہیں۔ انکی آنکھوں میں جیت کی پیاس ، انکے انداز میں کچھ کر دکھانے کا جوش ، اور وہ فریکچر ہوئی انگلی کے ساتھ بالنگ کرانا اور بیٹنگ کرنا ، کسی نے یہ شعر شاید وہاب ریاض کے لیے ہی لکھا تھا:
جو چلے تو جاں سے گزر گئے

 بہت شکریہ، وہاب ریاض ہم آپ کے احسان کے بھی قابل نہیں ہیں۔ اب آ جائیں منفی باتوں کی طرف۔ میرا یہ کہنا کہ سرفراز کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں سچ ثابت ہو گیا ہے۔ ان کی پرفارمنس اس ورلڈ کپ میں بس یہ تھی کہ وہ ہمارے کپتان تھے۔
وکٹ کے پیچھے سونے سے لے کر بیٹنگ میں ناکام ہونے تک ، مجھے نہیں سمجھ آتی کہ وہ ٹیم میں کر کیا رہے ہیں۔ اسی طرح حفیظ میری سمجھ سے باہر رہے۔ کاش وہ ٹیم سے بھی باہر رہتے۔ حسن علی اس ورلڈ کپ میں بلکل ناکام رہے۔
ان کی فارم اسی طرح غائب ہوئی ہے جیسے تربوز مارکیٹ سے اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ ہماری فیلڈنگ لاہور میں بنی بریانی سے بھی زیادہ بری رہی۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہماری فیلڈنگ تھی ہی نہیں۔ وہ بس ’پلیکھا‘ تھا۔ حفیظ ، ملک اور سرفراز کو سائڈ پہ کر کے ، میرا مشورہ ہے کہ باقی ٹیم پر مزید محنت کی جائے۔ حسنین پر محنت کی جائے۔
اسی ٹیم کو اگلے ورلڈ کپ تک اتنا تیار کر دیں کہ دوبارہ 105 کر کے پیزے اور برگر نہ کھائیں۔
اور جہاں تک بات ان لوگوں کی کہ " اب ہم کرکٹ نہیں دیکھیں گے" ، میں آپ کو لکھ کے دے سکتی ہوں کہ وہ اگلے ورلڈ کپ میں پھر اپنی نوکریاں داؤ پر لگا کر ورلڈ کپ دیکھ رہے ہونگے۔
اس ٹیم سے اس ورلڈ کپ میں محبت کرنا بڑا مشکل کام تھا لیکن محبت ہوئی ،اور کچھ ایسے ہوئی:
        محبت اب نہیں ہوگی
       یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
       گزر جائیں گے جب یہ دن
       یہ ان کی یاد میں ہوگی

شیئر: