Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پچھلے سال کے مقابلے میں پولیو کیسز میں تین گنا اضافہ‎

پاکستان میں متعدد پولیو ویکیسن مہمات کے باوجود پولیو کے کیسز کی تعداد میں گذشتہ سال کی نسبت تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
سوموار کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پولیو کے دو نئے کیسز سامنے آئے ہیں ۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں رواں سال عمر بھر کے لیے معذور کردینے والے اس وائرس سے متاثرہ بچوں کی تعداد 41 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زائد ہے۔
2018 میں پاکستان بھر میں پولیو کے صرف 12کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے فوٹو اے ایف پی

رواں سال پولیو وائرس سے متاثرہ بچوں میں سب سے زیادہ تعداد خیبرپختونخوا سے ہے جن کی تعداد 25 ہے، آٹھ کا تعلق خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع ،تین سندھ ، تین پنجاب اور دو کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پشاور واقعہ کے بعد بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 
پولیو کے انسداد کے لیے بنائے گئے ادارے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے بلوچستان میں سربراہ راشد رزاق کے مطابق نئے کیسز افغانستان سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ اور صوبہ سندھ سے ملحقہ علاقے جعفرآباد میں سامنے آئے ہیں۔ دونوں متاثرہ بچوں کے فضلہ کے نمونوں کی لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ 

انسداد پولیو کی ٹیموں کے ساتھ سکیورٹی کے لیے پولیس اہلکار بھی ہوتے ہیں فوٹو اے ایف پی

راشد رزاق نے بتایا کہ قلعہ عبداللہ کے علاقے یونین کونسل گردی پنکئی کے رہائشی نو ماہ کے ہیبت اللہ کو ان کے والدین نے پولیو سے بچاﺅ کی ویکسین پلانے سے انکار کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے بچے کو گھر گھر جانے والی پولیو ٹیموں سے چھپا رکھا تھا اور اس کی اب تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ متاثرہ بچے کی دو بہنیں رجسٹرڈ تھیں اور انہیں پولیو سے بچاﺅ کے قطرے باقاعدگی سے پلائے جارہے تھے۔ 

 

پولیو ایمرجنسی سینٹر کے صوبائی سربراہ کے مطابق دوسرا کیس سندھ اور بلوچستان کے سرحد پر واقع جعفرآباد کے یونین کونسل شاہان پلال سے رپورٹ ہوا ہے۔ متاثرہ بچے آٹھ ماہ کے امتیاز کو ان کے والدین کے بقول پانچ مرتبہ پولیو سے بچاﺅ کی ویکسین پلائی گئی مگر شاید پولیو ٹیموں کی جانب سے شدید گرمی میں ویکسین کو درکار درجہ حرارت میں نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے اس کا اثر ختم ہوگیا۔ بعض اوقات دو صوبوں کی سرحد پر رہنے والے خاندان کے بچے بھی انسداد پولیو مہم میں رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کے بعض اضلاع میں پولیو وائرس موجود ہے جس کی وجہ سے ہم جعفرآباد کو انسداد پولیو مہم کی ترجیحی فہرست میں شامل رکھتے ہیں۔
راشد رزاق کے مطابق بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ، افغان سرحد سے ملحقہ ضلع قلعہ عبداللہ اور پشین میں پولیو ٹیموں کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا تھا مگر اس سال اپریل میں پشاور میں انسداد پولیو کے قطرے پینے سے بچوں کے بیمار ہونے کی غلط خبریں چلنے کے بعد ہماری مشکلات کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ ان تینوں اضلاع میں پشاور واقعہ سے پہلے اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے انکاری والدین کی تعداد تین ہزار تھی مگر اب تعداد دگنی ہوگئی ہے۔ خاص طور پر قلعہ عبداللہ میں پولیو ٹیموں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

پولیو کے وائرس کے خاتمے کے لیے حکومت بچوں کو ہر جگہ پر پولیو کے قطرے دیتے ہیں فوٹو اے ایف پی

راشد رزاق نے مزید بتایا کہ’ پشاور واقعہ کے فوری بعد قلعہ عبداللہ کے شہر چمن میں انسداد پولیو ٹیم کی ایک خاتون رضا کار قاتلانہ حملے میں ہلاک اور دوسری زخمی ہوگئی تھی۔ اس حملے کے بعد مہم میں شامل افراد خوف کا شکار ہیں۔ ہماری ٹیمیں جان پر کھیل کر مہم میں حصہ لیتی ہیں مگر لوگوں کا ویکسین سے متعلق اعتماد اچھا نہیں۔ لوگوں کی طرف سے مزاحمت کافی زیادہ ہے۔ یہ نیا کیس بھی اس کی مثال ہے کہ کس طرح لوگ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلانے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لوگ منفی پروپیگنڈے اور بے بنیاد خبروں پر یقین کرتے ہیں،لوگ اپنے بچوں کی رجسٹریشن ہی نہیں کراتے۔ ہماری خواتین رضا کار سیکورٹی خطرات کے باوجود گھر گھر جاکر اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کوئی بچہ ویکیسن پینے سے رہ نہ جائے۔
ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں رواں سال ان دو کیسز سے پہلے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔ 2018ءمیں صوبے میں تین بچے پولیو وائر س سے متاثر ہوئے تھے اور تینوں کا تعلق ضلع دکی سے تھا۔ بلوچستان میں 2012ءسے اب تک46 رپورٹ ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ 25کیسز 2014ءمیں رپورٹ ہوئے تھے۔
 

شیئر: