ٹرمپ پر نسل پرستی کا الزام، ’آپ جس ملک سے آئی ہیں وہیں واپس چلی جائیں‘
ٹرمپ نے ارکان کانگرس کو مشورہ دیا کہ وہ جن ملکوں سے امریکہ آئی ہیں وہاں واپس چلی جائیں۔(فوٹو:اے ایف پی)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ان کے متنازع بیانات کی وجہ سے آئے روز کوئی نہ کوئی ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ اس بار امریکی صدر اپنی اس ٹویٹ کی وجہ سے ہدف تنقید ہیں جس میں انہوں نے ترقی پسند خواتین ارکان کانگرس کو مشورہ دیا کہ وہ جن ملکوں سے امریکہ آئی ہیں وہاں واپس چلی جائیں اور امریکی سیاست میں دخل اندازی کے بجائے اپنے ملکوں کی کرپٹ اور نااہل حکومتوں کو سدھاریں۔
اتوار کی صبح ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ ’ترقی پسند ڈیموکریٹک ارکان کانگریس کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے، جو پیدا تو دوسرے ملکوں میں ہوئی ہیں جہاں حکومتیں مکمل طور پر تباہ حال ہیں، بدتر ہیں، کرپٹ ترین اور نا اہل ہیں لیکن اب یہ خواتین کھل کر امریکا کے عوام کو یہ بتا رہی ہیں کہ یہاں کی حکومت کو کیسے کام کرنا چاہیے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان خواتین کو واپس جانا چاہیے اور پہلے اپنے ٹوٹے پھوٹے، جرائم سے بھرے ممالک کو سدھارنا چاہیے، اس کے بعد یہ واپس آئیں اور ہمیں بتائیں کہ کام کیسے ہوتا ہے۔
امریکی صدر نے کسی خاتون رکن کانگریس کا نام تو نہیں لیا تاہم یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کا اشارہ چار ترقی پسند ارکان کانگریس الیگزینڈریا کورتیز، الہان عمر، رشید طلیب، ایانا پریسلی کی طرف تھا۔
امریکی صدر کے اس متنازعے ٹویٹ پر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف محاذ کھل گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حوالے سے متنازعہ ٹویٹس کرنے پر نسل پرستی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
پارلیمانی سپیکر نینسی پلوسی نے اس ٹویٹ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کے ان بیانات کا مقصد قوم کو تقسیم کرنا ہے۔ کانگریس ارکان پر تنقید کے بجائے انہیں ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔‘
الیگزینڈرا کورتیز نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ’آپ اس لیے غصہ ہیں کیونکہ آپ ایسے امریکہ کا تصور نہیں کرسکتے جس میں ہم شامل ہوں۔‘
الہان عمر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کانگریس ممبر ہونے کے ناطے ہم نے صرف امریکہ کا ہی حلف اٹھایا ہے۔ اسی لیے ہم اسے بدترین، کرپٹ صدر سے بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان ٹویٹس کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ڈیموکریٹس کی ایسے لوگوں کی حمایت پر بے حد افسوس ہے جو ہمارے ملک کے بارے میں برا بولتے ہیں۔ اگر ڈیموکریٹ پارٹی ایسے غیرمناسب رویوں کا درگزر کرتی رہی، تو پھر ہم آپ کو 2020 کے انتخابات میں دیکھنے کی مزید توقع کرتے ہیں۔‘