سعودی عرب میں اب خواتین بھی بطور ڈرائیور نوکریوں پر
سعودی عرب میں اب خواتین بھی بطور ڈرائیور نوکریوں پر
منگل 23 جولائی 2019 16:06
ایک برس کے دوران بیرون ملک سے خواتین ڈرائیوروں کے لیے181 ویزے جاری کیے گئے ہیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی
سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملے ایک برس ہو چکا ہے اس سے قبل مرد گھروں میں ڈرائیورزکی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔
سعود عرب میں گھریلوڈرائیورز کی سب سے زیادہ تعداد انڈونیشیا کے شہریوں کی جبکہ دوسرے نمبر پر پاکستانی ڈرائیور سعودی عرب میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
خواتین ڈرائیوروں کے حوالے سے محکمہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ ایک برس کے دوران سعودی عرب میں بیرون ملک سے خواتین ڈرائیوروں کے لیے181 ویزے جاری کرائے جاچکے ہیں۔تاہم ان اعداد وشمار میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کن ممالک سے خواتین ڈرائیور ز کا انتخاب کیا گیا ہے ۔
سعودی وزارت محنت کا قانون
سعودی عرب میں وزارت محنت کے قانون کے مطابق بیرون ملک سے افرادی قوت درآمد کرنے کےلیے یہ لازمی ہے کہ جس پیشے کے افرادی قوت درآمد کی جارہی ہے ان سے وہی کام لیا جائے ۔ اس قانون کے اعتبار سے یہ ممکن نہیں کہ خادمہ کے پیشے پر مملکت آنے والی کوئی بھی خاتون سے گھریلوڈرائیور کا بھی کام لیا جائے۔
اس حوالے آن لائن عربی اخبار 24 کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اس وقت گھریلو ملازمین کی تعداد 24لاکھ54 ہزار 742 ہے جن میں سے 16 لاکھ 27ہزار 895 مرد جبکہ 8 لاکھ 26 ہزار 895 خواتین ملازمائیں ہیں ۔
گھریلو ملازمین کے جو پیشے ہیں ان میں ڈرائیور، صفائی کے کارکن، باورچی، ویٹرز، گھریلو درزی، پرائیوٹ اساتذہ، گھریلو نرس اور زرعی ملازمین شامل ہیں ۔ مذکورہ بالا پیشو ں پر آنے والے تمام ملازمین گھریلو عملے کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ ڈرائیور کے ویزے پر آنے والا زرعی ملازم یا ویٹرکے پیشے پر آنے والا الیکٹریشن کا کام نہیں کرسکتا ۔
مذکورہ قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی شہریوں کا کہنا تھا کہ اگر ان کی گھریلو ملازمہ کو ڈرائیونگ آتی ہے تو وہ اس سے ڈرائیور کا کام کیوں نہیں لے سکتے۔ اس بارے میں محکمہ پاسپورٹ کا کہنا تھا کہ جس پیش کے لئے ویزہ جاری کرایا گیا ہے آجر اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنے ملازمین سے وہی کام لیں ۔
قبل ازیں مملکت میں بیرون ملک سے خواتین ڈرائیوروں کے ویزے جاری نہیں ہوتے تھے۔ جب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملی ہے اس کے بعد سے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے بیرون ملک سے خواتین ڈرائیور ز کے پیشے کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔
مرد ڈرائیوروں کی طلب میں کمی؟
اگرچہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملے ایک برس ہو چکا ہے اس کے باوجود اب تک مرد ڈرائیورز کی طلب میں کمی نہیں ہوئی۔
عربی جریدے مکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ جو کام مرد ڈرائیور کر سکتے ہیں وہ ہم نہیں کرسکتیں۔ خواتین کا کہنا تھا کہ گاڑی چلا لینا ہی مقصد نہیں بلکہ گاڑی کی دیکھ بھال کرنا بھی اہم ذمہ داری ہے جس کے لیے مرد ڈرائیور ہونا لازمی ہے۔
اس حوالے سے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ڈرائیونگ کی اجازت ملنے سے قبل مجھے بازار یا کہیں بھی جاتے وقت اس بات کی فکر نہیں ہوتی تھی گاڑی کہاں پارک کرنی ہے یا کہاں نہیں میں منزل پر پہنچ کر گاڑی سے اتر جاتی تھی باقی ذمہ داری ڈرائیور کی ہوتی تھی ۔
خواتین گھریلو ڈرائیوروں کے حوالے سے سعودی شہری العامودی کا کہنا تھا کہ اگرچہ خواتین ڈرائیور رکھنا بہتر ہوتا ہے کیونکہ اس سے پردے کا مسئلہ نہیں ہوتاجبکہ مردڈرائیوروں کے حوالے سے کسی قدر مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تاہم وہ کام جو مرد ڈرائیور کرسکتے ہیں خواتین ڈرائیور نہیں کر سکتی۔ مثال کے طور پر جب گاڑی خراب ہو جائے تو اسے ورکشاپ لے جانا یا ٹائرتبدیل کرنا ایک خاتون کے بس کی بات نہیں یہی وجہ ہے کہ ابھی تک مرد ڈرائیوروں کی طلب میں کمی نہیں ہوئی ۔