Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صاحبہ گل: سوات کے بنڑ محلے میں کوکنے والی نئی کوئل

آج کل مینگورہ کے بنڑ محلے میں ایک نئی کوئل کوک رہی ہے۔
یوں تو اس محلے میں داخل ہوتے ہی خوبصورت آوازیں، گھنگروؤں کی جھنکاریں اور چاردیواریوں کے اندر حسین چہرے آپ کا استقبال کرتے ہیں لیکن 13 سالہ صاحبہ گل کے گلے سے نکلنے والی آواز اب ہر اس شخص کومسحورکر رہی ہے جو اس طرف کا رخ کرتا ہے۔  
بنڑ محلہ سوات کی ثقافت کا مرکز ہے۔ یہاں طالبان کے گھٹن زدہ ماحول میں بھی چند فنکار فن اور موسیقی کا دم بھرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان میں سے ایک صاحبہ کی خالہ، مشہور رقاصہ شبانہ بھی تھیں جنہوں نے طالبان کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اورپابندیوں کے اس دورمیں بھی اپنا رقص جاری رکھا۔ بدلے میں وہ قتل ہو گیئں۔
اس محلے نے اس پرآشوب دور میں بھی فنکار پیدا کیےاور پشتو موسیقی کو نازیہ اقبال اور غزالہ جاوید جیسے نام دیئے۔
لیکن جو شہرت آج صاحبہ گل اتنی کم عمری میں سمیٹ رہی ہیں، اس سےاندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے سالوں میں وہ پشتو موسیقی پراپنے اثرات چھوڑیں گی۔

صاحبہ کی خالہ نے طالبان کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اور پابندیوں کے دورمیں اپنا رقص جاری رکھا۔ فوٹو: اے ایف پی

 چوتھی جماعت میں پڑھنے والی صاحبہ گل کے اب تک 12 گانے ریلیز ہو چکے ہیں جو شائقین میں انتہائی مقبول ہو رہے ہیں۔
کسمپرسی کی وجہ سے وہ ابھی اپنا البم تیار نہیں کروا سکتیں، لیکن جب وہ اپنی تنگ اور گنجان آباد گلی کے خستہ حال مکان میں موسیقی کے سر لگاتی ہیں، تو ارد گرد کے لوگ بھی ان کی سریلی آواز کی طرف متوجہ ہوئے بغیر رہ نہیں سکتے۔
صاحبہ گل کو موسیقی سیکھتے ابھی صرف سات ماہ کا قلیل عرصہ بیتا ہے، لیکن انہوں نے اس مختصر وقت میں ہی پشتو موسیقی کے حلقوں میں اپنی پہچان بنا لی ہے اور ان کو مختلف تقاریب اور محافل موسیقی میں فن کے مظاہرے کے لئے بلایا جا رہا ہے۔
ان کو اب بیرون ملک سے بھی دعوت نامے موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں اور وہ عنقریب دبئی میں ایک محفل موسیقی میں شرکت کے لئے جا رہی ہیں۔

 چوتھی جماعت میں پڑھنے والی صاحبہ گل کے اب تک 12 گانے ریلیز ہو چکے ہیں۔

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی کامیابیوں پر بہت خوش ہیں اور مستقبل میں ایک بڑی گلوکارہ بننے کے لیے سخت محنت کر رہی ہیں۔
’بچپن میں جب میں ٹی وی پر پشتو کے گیت سنتی تھی تو میرے دل میں بھی یہ شوق پیدا ہوتا  کہ میں بھی اسی طرح گاؤں اور ایک بڑی گلوکارہ بنوں۔‘
’پہلے پہل میرے والدین نے اس کی اجازت نہیں دی۔ بعد میں میرے والد نے میرے شوق کو جنون میں تبدیل ہوتے دیکھ کر خود ہی میرے لیے استاد کا بندوبست کردیا۔‘
’اب میں گھنٹوں اپنے استاد کے سامنے بیٹھ کر موسیقی کے سر سیکھتی ہوں۔‘
صاحبہ گل کے استاد رحمان انجم نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ 33 سال سے اس فن میں ہیں اور انہوں نے تیس سے زائد شاگردوں کی تربیت کی ہے، لیکن صاحبہ کی لگن مثالی ہے۔

اس محلے نے اس پرآشوب دور میں بھی فنکار پیدا کئے۔ فوٹو: اے ایف پی

’صاحبہ گل نہ صرف محنتی ہیں بلکہ انہیں اس فن سے دلی لگاؤ بھی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ان کے گانے پشتو فلموں کا حصہ بنیں گے۔‘ 
 صاحبہ گل کی ایک بڑی بہن کائنات رقاصہ ہیں لیکن وہ بھی گلوکارہ بننا چاہتی ہیں، کیونکہ ان کے بقول گلوکارہ کو رقاصہ کی نسبت معاشرے میں بہتر مقام اور عزت ملتی ہے۔
تاہم والد کی بیماری کے بعد اب گھر کا چولہا جلانے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے جو ان کے گلوگار بننے کے سفر میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
صاحبہ موسیقی کے ساتھ ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ نہ صرف بڑی گلوکارہ بنیں بلکہ اعلی تعلیم بھی حاصل کریں۔

شیئر: