اوپر دی گئی تصویر پنجاب کے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کے ایک گاوں راجو بھنڈ کی ہے۔
اس تصویر میں نظر آنے والی کوٹھیاں اور بنگلے پاکستان میں رہ کر زمینداری، کاروبار یا ملازمت کے ذریعے حاصل ہونے والی کمائی سے نہیں بنائے گئے بلکہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ ساری کوٹھیاں یورپ کی کمائی سے بنی ہیں۔
اب اگر گاؤں میں خاندان کے ایک فرد کے پاس کوٹھی ، بنگلہ اور کار ہے اور دوسرے کے پاس نہیں ہے تو ان کے رہن سہن میں آنے والا فرق ان کی باہمی قربت کو کم کرنے کا باعث بننے لگتا ہے جس سے رشتہ داریاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
اسی طرح ایک شادی پر یورپ پلٹ رشتہ دار 50 ہزار روپے سلامی دے اور پاکستان میں رہ کر محنت مزدوری کرنے والا بمشکل ایک دو ہزار کا بندوبست ہی کر سکے تو خاندان میں کوئی اور سمجھے یا نہ سمجھے بندہ خود ہی اپنی اہمیت کم سمجھنے لگ جاتا ہے۔

گجرات میں گزشتہ تیس سالوں میں یورپ جانے والوں نے واپس آکر جب اپنے پیسے کو کوٹھی بنگلے کاروں پر لگانا شروع کیا تو معاشرے میں سماجی ناہمواری کا عنصر فروغ پانے لگا۔ ہر نوجوان جب آٹھویں نویں جماعت میں پہنچتا ہے تو اس کا دل کرتا ہے کہ وہ کسی طرح یورپ جائے اور بے تحاشا پیسے کما کر واپس لوٹے۔
محمد اسماعیل ولد محمد عنایت کا تعلق بھی راجو بھنڈ سے ہی تھا۔ اس کی برادری کے بیشتر افراد بلکہ پورے کے پورے گھرانے یورپ میں مقیم ہیں۔ اسماعیل کے والد پنجاب رینجرز سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد چھوٹی سی دکان کرتے تھے جبکہ وہ چاروں بھائی کبھی زمینداری اور کبھی محنت مزدوری کرکے گھر چلانے کی کوشش کرتے۔
چھ سال قبل اسماعیل نے گھر والوں کو مجبور کیا کہ مالی حالات بدلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ یورپ جایا جائے اور اس کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ ایجنٹ کو پیسے دیکر لیبیا اور پھر سمندر کے راستے یورپ جائے۔
اس مقصد کے لیے زمین بیچی گئی اور اسماعیل لیبیا پہنچ گیا۔ وہاں پر جاری تعمیر نو کے کام کی وجہ سے اسے اچھی مزدوری مل گئی۔ اس نے خود آگے جانے کے بجائے اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو وہاں پر بلایا اور کچھ عرصہ بعد انھیں وہاں سے سمندر کے راستے اسپین بھیج دیا۔
اسماعیل نے ایک غیر معمولی کام یہ کیا کہ اس نے ایجنٹ کو پیسے دیکر اپنی بیوی اور بیٹے کو بھی بلا لیا اور لیبیا میں ہی اللہ نے اسے ایک اور بیٹی بھی عطا کی۔ ایک بڑا بھائی رہ گیا تھا اس کو بھی لیبا بلایا اور جنوری 2018 میں سب نے ایک ساتھ ہی سمندر کے راستے یورپ جانے کا فیصلہ کیا۔

روانگی کے کچھ ہی دیر بعد کشتی کو حادثہ پیش آیا اور پورا خاندان ہی ڈوب گیا۔ بڑا بھائی رحمت خان تو بچ گیا لیکن اسماعیل، اس کی بیوی عظمت، بیٹا سعد علی اور دو ماہ کی بیٹی فاطمہ نہ بچ سکے۔
ابتدائی طور پر پاکستانی دفتر خارجہ نے جن ہلاک پاکستانیوں کی فہرست جاری کی ان میں رحمت خان کا نام بھی شامل تھا لیکن اس کے زندہ ہونے کی خبر نے متاثرہ خاندان کو جہاں ایک اچھی خبر دی وہیں ان کو دوہرے کرب میں مبتلا کر دیا کہ جب تک مرحومین کی لاشیں نہیں مل جاتیں تو امید لگ گئی کہ شاید وہ بھی زندہ ہوں۔
کچھ دنوں بعد اسماعیل کی بیوی عظمت کی لاش پاکستان بھیج دی گئی تاہم باقی تین لاشیں نہ ملیں۔ اس غم کو بوڑھا باپ برداشت نہ کر سکا اور ایک ہی مہینے بعد وہ بھی چل بسا۔
اسماعیل کی بوڑھی ماں کو اب ابھی امید ہے کہ اس کا بیٹا اور پوتی پوتا زندہ ہیں اور کسی نے ان کو پکڑا ہوا ہے یا اس حادثے نے ان کے ذہنوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور وہ خاندان کے بارے میں بھول گئے ہیں۔
بوڑھی ماں اب بھی دروازے پر نظریں گاڑے منتظر رہتی ہے کہ شاید کوئی آئے اور اس کو خبر دے کہ اس کے بچے زندہ ہیں۔ وہ جب سنتی ہے کہ فیس بک پر کسی گمشدہ کی تصویر لگانے سے اس کی خبر مل گئی تو وہ موبائل پکڑے اپنے رشتہ دار نوجوانوں سے کہتی ہیں کہ ’میرے اسماعیل کی تصویر فیس بک پر لگا دو شاید کوئی اسے دیکھ کر پہچان لے اور ہمیں خبر کر دے۔‘
اسماعیل یا اس کا خاندان اس حادثے کا شکار ہونے والا اکلوتا خاندان نہیں تھا بلکہ اس طرح کے متعدد حادثات میں سینکڑوں پاکستانی نوجوان سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے کبھی سمندر ڈوب جاتے ہیں، کبھی گولیوں سے بھون دیے جاتے ہیں، کبھی اغوا کر لیے جاتے ہیں تو کبھی موسم کی سختیاں ان کی جان لے لیتی ہیں اور جو پہنچ جاتے ہیں بعض اوقات وہ بھی سالوں بے روزگاری میں گزار دیتے ہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ 10 برس میں 200 پاکستانی یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوئے۔
سالانہ لاکھوں نوجوان غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی منزل یورپ کے ممالک یونان، اٹلی، اسپین، فرانس اور جرمنی ہوتے ہیں۔ جب خود سیٹل ہو جائیں تو پھر بیوی بچوں کو بلانے اور برطانیہ جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ یونٹ کے مطابق سال 2018 میں انسانی سمگلنگ سے متعلق 7037 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 6343 مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔
اسی طرح انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے نئے قانون کے تحت 348 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
