Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیا واقعی وہاں سڑکوں پر پانی نہیں کھڑا ہوتا؟‘

گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنا بارش کو نعمت سے زحمت بنا دیتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
بچپن کراچی میں گزرا۔ جس دن صبح آنکھ کھلتے ہی کھڑکی سے آسمان پر کالے بادل دکھتے تو سب سے پہلا خیال یہ آتا کہ آج سکول پہنچنے پر گیٹ بند ملے گا۔ سکول پہنچ کر ہم یہ سننے کے منتظر رہتے کہ ’واپس گھر جاؤ‘ تاکہ تیز بارش میں چھٹی کرتے ہوئے ٹفن کا کھانا رستے میں کھاتے ہوئے جائیں۔
ایک مرتبہ تو ایسا ہوا کہ جیسے تیسے ہم سکول تو پہنچ گئے مگر موسلادھار بارش کی وجہ سے کئی اساتذہ اور طلبہ راستے میں پھنس گئے یا گھر ہی سے نہ نکل سکے اور پھر ہمارے لیے بھی سکول سے چھٹی کا اعلان ہوا۔
چونکہ کراچی میں زیادہ بارش صرف مون سون میں ہوتی ہے اور مون سون جون جولائی کی گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران آتے ہیں تو اکثر بارش سے گھر پر ہی لطف اندوز ہوتے۔
بچپن میں چھوٹی بہن، کزنز اور گھر کے نزدیک رہنے والی سہیلیوں کے ساتھ  گلی میں موسم کا مزہ لینے صرف تب نکلتے تھے جب آسمان سے پانی برسنے کا سلسلہ شروع ہوتا۔ بوندا باندی پر تو بس ایک دوسرے کو مطلع کرتے تھے کہ ’بارش ہونے والی ہے‘ تاکہ جلدی سے ایسے کپڑے پہن لیں جو کیچڑ میں خراب بھی ہو جائیں تو امی سے ڈانٹ نہ پڑے۔
گلی میں جمع پانی ہمارے لیے کسی دریا کے منظر سے کم نہ ہوتا، لیکن جب رات کو گاڑی میں ابو کے ساتھ باہر نکلتے تو بارش کا پانی سڑکوں پر بھی جمع ملتا اور گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنا بارش کو نعمت سے زحمت میں تبدیل کر دیتا۔

کراچی کی بارش شہریوں کے لیے ٹریفک میں پھنسنے اور بجلی غائب ہونے کا نام ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بچپن تو گزر گیا مگر کراچی کی بارش کا منظر نہ بدلا۔ یہی دیکھا کہ جیسے ہم بڑے ہوئے ویسے کراچی میں ہر سال بارش کے بعد سڑکوں پر اور گلیوں میں جمع ہونے والے پانی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
پہلے گلی میں صرف ایڑیوں تک پانی جمع ہوتا لیکن پھر ایسا ہونے لگا کہ اپنے ہی محلے میں ایک گلی سے دوسرے گلی تک گاڑی میں جانا بھی دشوار ٹھہرا۔
حالیہ بارش میں ’شہر کے ڈوبنے‘ کی ایک وجہ ہر طرف سڑکوں کی مرمت اور پلوں کی تعمیر کے لیے شروع ہونے والا کام بھی ہو سکتا ہے۔
کراچی کا شمال ہو کہ جنوب، مغرب ہو یا مشرق، کئی برس سے ہر طرف کوئی نہ کوئی پل تعمیر ہو رہا ہے اور جب ان منصوبوں میں نکاسی آب کا انتظام نہ ہو تو بارش کا پانی کہاں جائے۔ 
اور پھر گھنٹوں، اکثر دنوں تک گھر میں بجلی کا منقتطع ہونا، یوں کہہ لیں کہ کراچی والے بارش ہونے پر نہ تو گھر کے رہتے ہیں نہ باہر کے۔
آپ کسی بھی کراچی کے رہائشی سے پوچھیں تو اس کا جواب ہوگا کہ ’کراچی میں بارش سڑکوں پر گھنٹوں پھنسے رہنے اور گھر میں بجلی غائب ہونے کا نام ہے۔‘

آسمان پر کالے بادل دکھتے تو پہلا خیال یہ آتا کہ آج سکول پہنچنے پر گیٹ بند ملے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

پچھلے موسم سرما میں اسلام آباد منتقل ہوئی تو صبح شروع ہونے والی موسلا دھار بارش سے ذہن میں کراچی کے مناظر ابھرے اور سوچا کہ اب دفتر کیسے پہنچوں گی لیکن باہر نکل کر دیکھا تو زندگی معمول کے مطابق رواں تھی۔ اور اب مون سون کی بارشوں میں بھی ایسا ہی ہے مگر آبائی شہر کراچی میں کچھ بھی نہیں بدلا۔
پھر بارش اور پھر وہ مشکلات اور وہی خبریں اور سیاست دانوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں اور ان کے بیچ میں کراچی سے اہلخانہ اور سہیلیوں کے فون جن میں شکایتاً بتایا جاتا ہے کہ اتنے گھنٹوں سے بجلی نہیں ہے اور کیسے وہ کہیں بھی جاتے ہوئے گھنٹوں سڑک پر پھنسے رہتے ہیں۔ فون کے دوسری طرف ہم اسلام آباد میں موسلا دھار بارش کے باوجود بغیر رش میں پھنسے کہیں نہ کہیں جا رہے ہیں۔
’ہیں، وہاں بارش کے بعد سڑک پر پانی نہیں جمع ہوتا!‘ بہن نے میرے بتانے پر حیرت کا اظہار کیا۔ 
ان سب مشکلات کے باوجود کراچی کے رہائشی آسمان سے بہتا پانی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ کراچی کی پانی میں ڈوبی شاہراؤں کے باوجود وہاں گھر پر رہ کر بارش سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے لاؤنج میں رکھے ٹی وی کی آواز کو بند کریں جو بتا رہا ہوتا ہے کہ کراچی ملکی ترقی کی چابی ہے اور ساتھ میں شکوؤں اور الزامات کے بعد یہ سوال سنائی دیتا ہے کہ اس چابی کو زنگ لگانے کا ذمہ دار کون ہے؟

شیئر:

متعلقہ خبریں