پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے مشترکہ فورم قومی سلامتی کمیٹی نے انڈیا سے تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق سفارتی زبان میں تعلقات محدود کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تعلقات ختم بھی نہیں کیے جا رہے اور تعلقات رکھے بھی نہیں جا رہے۔
سابق سفیر علی سرور نقوی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سفارتی سطح پر تعلقات محدود کرنے کا مطلب اپنا سفیر واپس بلانا اور جس ملک سے تعلقات محدود کیے جا رہے ہیں اس کے سفیر کو واپس بھیجنا ہوتا ہے اور یہ اقدام تعلقات کے خاتمے سے نچلے درجے کا اقدام ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ محدود تعلقات میں سفارت خانے کو محدود یا رسٹرکٹڈ آپریشن کی اجازت ہوتی ہے۔ علی سرور نقوی نے کہا کہ محدود تعلقات کے دوران سفارت کاروں کی نقل و حرکت محدود اور وزارت خارجہ کی اجازت سے مشروط ہوتی ہے۔
انڈیا کے ساتھ محدود تعلقات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
پاکستان نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ انڈیا کے ساتھ دو طرفہ ارینجمنٹس/ انتظامات پر بھی نظر ثانی کی جائے گی۔ سابق سفارت کار عمر خان علی شیر زئی کہتے ہیں کہ اب ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کے مطابق پاکستانی فوج اس لیے موجود ہے کہ انڈیا کی جانب سے کسی بھی جارحیت اور کشمیر پر حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔
عمر خان علی شیر زئی کہتے ہیں کہ پاکستان کو انڈین اقدام کو اعلان جنگ سمجھ کر جواب دینا چاہیے تھا لیکن ہم سفارت کاری میں الجھے ہوئے ہیں جس کا انڈیا پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کےدرمیان ماضی میں کئی بار ایسے موڑ آئے کہ تعلقات اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر محدود ہوئے اور دونوں ممالک کے ہائی کمشنرز واپس بھیجے اور بلائے گئے۔
مزید پڑھیں
-
’تحریک آزادی زور پکڑے گی، پلوامہ جیسے واقعات ہوں گے‘Node ID: 428351