مسافر لاری اڈے کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب سے بنا ہے یہی حال ہے۔
اگر آپ گرینڈ ٹرنک روڈ جسے عرف عام میں جی ٹی روڈ بھی کہا جاتا ہے پر سفر کرتے ہوئے لاہور جا رہے ہوں تو جیسے ہی آپ دریائے راوی پار کرتے ہیں اور گاڑی آگے بڑھتی ہے تو آپ کو اپنے سامنے مسجد کے اونچے مینار نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ تاریخی بادشاہی مسجد ہے جو مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں 1673ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی وسیع و عریض رقبے پہ پھیلا ہوا مشہور منٹو پارک ہے جسے اب گریٹر اقبال پارک بھی کہا جاتا ہے۔ بادشاہی مسجد اور منٹو پارک کے بالکل ساتھ ہی مغل دور کا ایک اور عظیم شاہکار جسے اس وقت شہر کی حفاظت کی غرض سے تعمیر کیا گیا تھا مشہور شاہی قلعہ بھی واقع ہے۔ جیسے ہی گاڑی منٹو پارک کے ساتھ بائیں جانب آگے بڑھتی ہے تو آپ کو لوگوں کا ایک بے ہنگم جم غفیر نظر آنے لگتا ہے جو متلاشی نظروں سے ہر آنے اور جانے والی گاڑی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جیسے گاڑی بادامی باغ اڈے کی طرف بڑھتی ہے اونچی آواز میں ہارن بجاتی چھوٹی، بڑی بسوں کی ایک کثیر تعداد نظر آنے لگتی ہے۔
لاہور میں واقع بادامی باغ کا لاری اڈہ وہ جگہ ہے جہاں سے آپ کو ملک کے کسی بھی کونے میں سفر کرنے کے لئے گاڑی بآسانی مل جاتی ہے۔ بادامی باغ کا یہ اڈہ سابق صدر ایوب خان کے دور میں 1961 میں 282 کنال زمین پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے لاری اڈہ سرائے سلطان، موچی دروازہ، کے پاس واقع تھا لیکن جگہ کم پڑنے سے بادامی باغ منتقل کیا گیا۔ اڈہ بننے سے پہلے اس جگہ پر جوہڑ موجود تھا جہاں والڈ سٹی کے اردگرد کی آبادیوں کا سارا پانی جمع ہوتا تھا۔
لاہور میں اس کے علاوہ بھی چند اڈے بنائے گئے ہیں لیکن سب سے زیادہ مسافر اپنے سفر کے لئے یہی اڈہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ لاری اڈہ پنجاب کا تو سب سے بڑا اڈہ ہے ہی مگر بعض لوگوں کے نزدیک یہ شاید پاکستان کا سب سے بڑا جنرل بس سٹینڈ بھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس لاری اڈے میں روزانہ 4000 کے قریب چھوٹی، بڑی گاڑیاں آتی اور جاتی ہیں جن میں کم و بیش 50 ہزار کے قریب مسافر ملک کے دوسرے شہروں بشمول راولپنڈی/ اسلام آباد، کراچی، پشاور، کوئٹہ، گلگت، آزاد کشمیر، فیصل آباد، سیالکوٹ اور ملتان وغیرہ آتے اور جاتے ہیں۔
بادامی باغ کے لاری اڈے سے شہری حکومت سالانہ کروڑوں روپے مختلف ٹیکسوں اور فیسوں کی مد میں اکٹھا کرتی ہے لیکن اڈے کی حالت زار دیکھ کر اکثر مسافر شکایات کرتے نظر آتے ہیں کہ اتنے پیسے اکھٹے کرنے کے باوجود اس جگہ پر خرچ کیوں نہیں کیے جاتے۔ ایک طرف مسافروں کے لیے بیٹھنے (انتظار گاہ)، اچھا کھانے اور پینے کے لئے صاف پانی تک دستیاب نہیں، بیت الخلا کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور مون سون کی بارش میں سب سے زیادہ گندگی آپ کو بادامی باغ کے لاری اڈے میں ہی ملے گی۔ ہر طرف کیچڑ کے ڈھیر، گھٹنوں تک کھڑا پانی جس میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہوجاتا ہے وہ ہر آنے والے مسافر کو منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔
المیہ تو یہ بھی ہے کہ ایک ایسا ملک جس نے تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہنے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک ہزاروں جانیں گنوائی ہوں وہاں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے لاری اڈے کی سکیورٹی کے انتظامات کی حالت یہ ہے کہ نہ ہی گاڑیوں اور نہ ہی مسافروں کی چیکنگ کا کوئی انتظام موجود ہے۔ کہیں کوئی واک تھرو گیٹ یا سی سی ٹی وی کی سہولت تک نہیں۔ کسی گاڑی والے یا لاری اڈے کی ضلعی انتظامیہ کسی کے پاس بھی کسی مسافر کا کوئی ریکارڈ میسر نہیں کہ کون کب، کہاں سے آیا اور کب کہاں گیا۔ گاڑی میں مسافروں کا شناختی کارڈ دیکھ کر بٹھانے کا تو رواج تک نہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک مسافر جمیل جو مظفر آباد جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے، کا کہنا تھا کچھ سامان خریدنے کی غرض سے وہ پچھلے 15 برس سے ہر ماہ لاہور آتے ہیں لیکن اس لاری اڈے کی حالت بجائے بہتر ہونے کے ابتر ہی ہوئی ہے۔ جمیل کا کہنا تھا کہ روزانہ اتنی بسیں اس جگہ سے نکلتی ہیں اور ضلعی انتظامیہ کو اتنا پیسہ بھی اکھٹا ہوتا ہوگا تو پھر وہ سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے کچھ کرتے کیوں نہیں۔
دوسری طرف ان ہزاروں گاڑیوں کے ڈرائیورز کے آرام کرنے اور سستانے کے لیے جگہ کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ گھنٹوں کی مسافت کے بعد انھیں گاڑیوں کے اندر سیٹوں پہ ہی رات گزارنا پڑتی ہے۔ نیند پوری نہ ہونے سے ڈرائیورز اکثر حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ ریسکیو 1122 کے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں پچھلے 15 برس میں 19 لاکھ سے زیادہ ٹریفک حادثات ہوئے ہیں اور ان میں 25 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے حادثات میں ہزاروں لوگ زندگی بھر کے لیے معذور بھی ہوچکے ہیں۔
ارشد نامی ایک بس ڈرائیور نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے کئی بار اپنے خدشات اپنے مالکان کے ذریعے حکام تک پہنچائے ہیں لیکن تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر حادثات ڈرائیور حضرات کی نیند پوری نہ ہونے سے پیش آتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ارشد کا کہنا تھا کہ بسوں کی آمد اور روانگی کا ایک طریقہ کار طے ہونا چاہیے تاکہ ڈرائیور حضرات سڑکوں پہ غیر ضروری سپیڈ سے اجتناب کریں اور حادثات میں بھی کمی ہو۔
بادامی باغ لاری اڈے کا ایک پہلو ہماری ثقافت، تاریخ اور تہذیب سے جڑا ہے۔ لاری اڈہ جہاں واقع ہے اس کے بالکل سامنے منٹو پارک، باشاہی مسجد اور شاہی قلعہ واقع ہیں جو کہ نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے دیکھنے کے لئے اہم تاریخی مقامات ہیں اور ہر سال ہزاروں لوگ انھیں دیکھنے ملک کے طول و عرض سے لاہور آتے ہیں لیکن ایسے میں ان تاریخی مقامات کے ساتھ ہی ہزاروں گاڑیوں کا شور، مسافروں کا رش ان کا مزہ کرکرہ کر دیتا ہے۔
اپنے ثقافتی ورثے کو نہ صرف محفوظ بنانے بلکہ اسے اجاگر کرنے کی غرض سے ہی بادامی باغ کے لاری اڈے کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کی تجاویز بھی سامنے آتی رہیں لیکن تاحال ضلعی انتظامیہ یا صوبائی حکومت ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکی۔
والڈ سٹی اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو شہر کی ثقافت اور تاریخ کو محفوظ بنانے کے لئے سالہا سال سے کوشاں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ والڈ سٹی کے اردگرد کاروباری سرگرمیوں کی وجہ سے اس لاری اڈے کو ہٹانا حکام کے لیے ایک درد سر بنا ہوا ہے۔ اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ لاری اڈے کو کسی اور جگہ منتقل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ لوگ ہیں جن کے لاری اڈے کے اردگرد کاروبار پھیلے ہوئے ہیں اور وہ کیوں چاہیں گے کہ یہ اڈہ یہاں سے منتقل ہو جس سے انھیں کاروباری نقصان ہو۔
ایک سوال کو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف لاری اڈہ بلکہ جتنے بھی کاروباری مراکز والڈ سٹی کے اندر یا اردگرد قائم ہیں ان سب کا ہٹایا جانا بہت ضروری ہے ’تبھی ہم اپنے ورثے، ثقافت اور تاریخ کو محفوظ رکھ پائیں گے‘۔
صدر لاہور ٹرانسپورٹرز اینڈ ورکرز اتحاد شکیل بٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ شہری حکومت اس اڈے سے تقریباً ایک ارب روپے سالانہ اکٹھا کرتی ہے لیکن اس اڈے میں سہولیات کو بہتر کرنے پر کچھ خرچ نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ انتظامیہ کو اپنے مسائل سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب سے یہ اڈا بنا ہے تب سے اس کی یہی حالت ہے، بارشوں کا سارا پانی ادھر جمع ہوتا ہے جس میں بعد میں سیوریج کا گندہ پانی بھی شامل ہوجاتا ہے اور تعفن آتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 1960 کے عشرے سے بنے اس اڈے میں اب گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی ہے لیکن جگہ کا اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ اس جگہ میں سے بھی کچھ کاروباری مقاصد کے لیے دے دی گئی اور کچھ جگہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بیچ بھی دی گئی تھی۔
کمشنر لاہور ڈویژن آصف بلال لودھی کا کہنا تھا کہ بادامی باغ لاری اڈے کے مسائل حل کرنے کے لئے انھوں نے کچھ روز قبل ہی ایک میٹنگ رکھی تھی جس میں متعلقہ حکام کو فوری طور پر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے متعلق ہدایات دے دی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی کمپیوٹرائزیشن، مسافروں کی مینوئل چیکنگ، داخلی و خارجی راستوں پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب، نکاسی آب وغیرہ کے فوری حل کے لیے احکامات دے دیے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سکیورٹی کے لیے نجی فرم کی خدمات لی جائیں گی اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کے حکام لاری اڈے میں کھانے، پینے کی اشیا کے معیار کو بھی جانچیں گے۔