اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال پر غور کے لیے بلائے گئے مشاورتی اجلاس کو پاکستان اور انڈیا دونوں ہی اپنی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر گفتگو کا مطلب ہے کہ کشمیر انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک بین الااقوامی مسئلہ ہے اور سلامتی کونسل نے انڈیا کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب انڈیا کے مستقل مندوب سید ابوبکر الدین نے دعویٰ کیا تھا کہ اجلاس کے دوران کسی بھی ملک نے انڈیا کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی نشاندہی نہیں کی اور کشمیر انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ٹویٹر پر اپنے پیغام میں سلامتی کونسل کے اجلاس کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ’50 برس میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ دنیا کے سب سے بڑے سفارتی فورم نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے ۔ اہل کا کشمیر کا حق خوداریت سلامتی کونسل کی 11 قراردوں میں دہرایا گیا ہے ۔‘
اردو نیوز نے بین الااقوامی امور کے ماہرین اور سفارت کاروں سے بات کر کے جاننے کی کوشش کی ہے کہ سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس کا نتییجہ آخر کس کے حق میں رہا ہے؟
سلامتی کونسل کے اجلاس کا نتیجہ کس کے حق میں ہے ؟
ماہر بین الااقوامی امور نجم رفیق نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’سلامتی کونسل کے اجلاس کو کسی بھی فریق کی جیت نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس اجلاس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ممالک کے لیے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اہم نہیں بلکہ یہ ممالک نیوکلئیر جنگ کی وجہ سے زیادہ فکر مند ہیں۔‘
ماہر بین الااقوامی امور ڈاکٹر رفعت حسین کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس میں کیا باتیں ہوئیں ان کا کسی کو علم نہیں۔ ابھی تک چین کے مستقل مندوب کی جانب سے جو بیان سامنے آیا ہے اس کے تناظر میں ہی تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
ان کے مطابق سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس میں کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینا ہی پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ’پاکستان کی سفارتی جیت صرف اس حوالے سے ہے کہ انڈیا چاہتا تھا کہ کشمیر پر کسی بین الااقوامی فورم پر بات نہ کی جائے۔ سلامتی کونسل کا بند کمرے میں مشاورتی اجلاس ہونا بھی پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔ پاکستان کی حقیقی کامیابی اس وقت ہوگی جب سلامتی کونسل کے باضاطہ اجلاس میں کشمیر کا معاملہ زیر غور آئے گا۔‘
سابق سفیر شمشاد احمد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان نے عالمی برادری کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان دنیا کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔‘
کتنے ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے؟
اس سوال کے جواب میں نجم رفیق نے کہا کے سلامتی کونسل کے رکن ممالک دونوں فریقین کو اس مسئلہ پر مل بیٹھ کر بات کرنے کا ہی کہیں گے ۔ اور کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئے گی۔
ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ ’فرانس اور ڈومینیکن ریپبلک نے اس اجلاس کے نتیجے میں واضح بیان دینے کی مخالفت کی ہے۔‘
سابق سفیر شمشاد احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کو کشمیر کو قومی مسئلہ سمجھ کر لڑنا ہوگا۔ ’سلامتی کونسل کا اجلاس انڈیا کے اوپر مزید دباو ڈالے گا ۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کشمیر پر غیر قانونی تسلط قائم رکھنے کے لئے بنائے تھے۔ اس کے خاتمے سے اب دنیا کے سامنے انڈیا کا کشمیر پر غیر قانونی تسلط کھل کر سامنے آگیا ہے۔ جس سے پاکستان کو موقع مل گیا ہے کہ وہ دنیا کو بتائے اور عالمی برادری بھی اب اس طرف زیادہ توجہ دے گی۔
کشمیر کا معاملہ کسی خاطر خواہ نتیجے پرپہنچے گا؟
ڈاکٹر رفعت حسین کہتے ہیں کہ پاکستان نے اپنی سفارتی حدود میں رہ کر حکمت عملی اپنانی ہے ۔ ’ہمارے اوپر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے ، ملک قرضوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، اس معاشی صورتحال میں پاکستان اپنا اثر و رسوخ نہیں منوا سکتا ۔‘
سابق سفیر شماد احمد کہتے ہیں ’پاکستان جب تک مضبوط نہیں ہوگا اس وقت تک کشمیری عوام اپنی منزل تک نہیں پہنچے گی۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں ہم مذاکرات میں انصاف نہیں حاصل کر سکتے۔‘
نجم رفیق کے مطابق مسئلہ کشمیر کے معاملے پر سلامتی کونسل کسی خاطر خواہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی ۔ سفارتی سطح پر دونوں ممالک کو مل بیٹھ کر معاملات درست کرنے تک ہی بیانات سامنے آئیں گے اور سلامتی کونسل سے اس سے زیادہ امیدیں نہیں لگانی چاہیں۔‘
پاکستان کے پاس کون سے آپشنز موجود ہیں؟
پاکستان کے آپشنز پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستان اس معاملے کو اٹھا سکتا ہے۔ ’ اصل معاملہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہے ۔ حکومت کو نہیں بلکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیری عوام کو امدادی سامان لے کر بارڈر کے اس پار جانا چاہیے اور بین الااقوامی امدادی ایجنسیز کو متحرک کر کے اس معاملے کو اٹھایا جا سکتا ہے۔ ‘
نجم رفیق نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ پاکستان نے سفارتی سطح پر جو کرنا تھا وہ کر لیا ۔ میرا نہیں خیال کے انڈیا اب کشمیر کو خصوصی حیثیت بحال کرے گا ۔ اب دونوں ممالک کو ایل او سی کے حوالے سے مل بیٹھ کر معاملات طے کرنا ہوں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ نیوکلئیر ہتھیار کا استعمال کوئی آپشن نہیں ہے دونوں ممالک کو مذاکرات کے زریعے ہی معاملات طے کرنا ہوں گے۔
ڈاکٹر رفعت حسین کہتے ہیں پاکستان کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھا نا چاہیے۔ ’پاکستان کو اب کشمیر سے کرفیو اٹھانے کا مطالبہ کرنا چاہئے حالیہ صوتحال میں امریکی صدر یا کسی کے کہنے پر انڈیا کے ساتھ بات چیت کا کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے اقدام کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ ‘
سابق سفیر شماد احمد نے کہا کہ ’کشمیر کا معاملہ ہمیشہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ لیکن پچھلے دس سالوں میں کشمیر کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دینی چاہئے تھے۔ سفارتی سطح پر کشمیر کا معاملہ جس قدر آج اٹھایا گیا وہ اسے سے پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا۔‘