آر ایس ایس کی بنیاد 1925 میں رکھی گئی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
گذشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی مختلف تقاریر میں آر ایس ایس کا ذکر کیا۔ یہ آر ایس ایس کیا ہے اور اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟
آر ایس ایس کمپیوٹر کی کوئی اصطلاح نہیں بلکہ دائيں بازو کی قوم پرست ہندو تنظیم ہے، جس کا پورا نام راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہے۔ اس کا قیام 25 ستمبر 1925 کو انڈیا کے شہر ناگپور میں ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگوار کی کوششوں سے عمل میں آیا تھا۔
اگر آپ اس کی ویب سائٹ پر جائیں تو وہاں آپ کو ہیڈگوار کا قول نظر آئے گا جس میں انھوں نے ہندوؤں کو انڈیا کی ’سانس‘ قرار دیا ہے اور کہا کہ ’اگر انڈیا کو بچانا ہے تو ہندو تہذیب کو جلا بخشنا ہوگی۔‘
لیکن اگر آپ وکی پیڈیا پر دیکھیں تو یہاں اسے ’ہندو قوم پرست نیم فوجی رضاکار تنظیم‘ کہا گیا ہے۔ بعض لوگ اسے ہندوستان کی ’فاشسٹ‘ تنظیم بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کے بہت سے رضا کاروں کے لیے جرمنی کے ہٹلر مشعل راہ ہیں۔
اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جو کہ اس تنظیم یا سنگھ پریوار (خاندان) کا سیاسی چہرہ ہے وہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے تو آر ایس ایس دنیا کی سب سے بڑی تنظیمی اکائی ہے۔
اگرچہ اس تنظیم سے منسلک افراد کا دعویٰ ہے کہ اس کا قیام انڈیا کو انگریزوں سے آزادی دلانے کے لیے عمل میں آیا تھا لیکن اس کے ناقدین اور شواہد بتاتے ہیں کہ اس نے عملی طور پر انگریزوں کے خلاف کوئی کام نہیں کیا بلکہ اس کے عسکری میلان کا سارا زور مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف نکلا۔
اس تنظیم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ پدرشاہی پر مبنی غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والی اور آمریت پسند تنظیم ہے اور مسلمانوں کے بارے میں بظاہر خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ مسلمانوں کو غیر ملکی تصور کرتی ہے اور آئے دن ان کے رہنما مسلمانوں کو پاکستان جانے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
ڈنمارک کے سکالر تھامس بلوم ہینسن نے اپنی کتاب ’دی سیفرن ویو: ڈیموکریسی اینڈ ہندو نیشنلزم ان انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ انھیں ’جمہوری اقدار میں صرف برائے نام دلچسپی ہے۔‘
یہ اپنے قیام سے لے کر اب تک انڈیا کو 'ہندو راشٹر' یعنی ہندو ملک بنانے کے مشن پر لگی ہوئی ہے۔ وہ ہندوازم کو مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ کہتی ہے۔
لیکن انڈیا کے سینیئر صحافی انل یادو کے مطابق 'عملی طور پر یہ مسلم اپیزمنٹ، تبدیلی مذہب، گوکشی، رام مندر، کامن سول کوڈ جیسے مذہبی معاملوں پر سرگرم عمل رہتی ہے جو اکثر فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بنتے ہیں اور لا تعداد رپورٹوں کے مطابق اکثر اس تنظیم پر فسادات میں شرکت کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔
وکی پیڈیا میں درج ہے کہ کس طرح ہیڈگوار نے 1927 میں مسلمانوں کے خلاف 100 سویم سیوکوں کو تیار کیا تھا اور چار ستمبر کو لکشمی پوجا کے دن مسجد کے سامنے سے ڈھول باجے کے ساتھ جلوس لے جانے کی کوشش کی تھی اور جب مسلمانوں نے انھیں روکا تو آر ایس ایس کے کارکن تیار تھے اور انھوں نے مسلمانوں کو اس علاقے کو چھوڑنے پر مجبور کیا۔
'ہندوتوا' نامی کتاب کے مصنف اور آر ایس ایس کے دوسرے اہم سربراہ ایم ایس گولورکر نے اپنے ایک خط میں ذکر کیا ہے کہ انھوں نے کس طرح ناگپور کے دنگوں میں اپنے ہاتھ کا استعمال کیا تھا۔
ان کے متعلق کتاب لکھنے والے پروفیسر جیوتیرمے شرما کا کہنا ہے کہ 'ناگپور میں تو اپنے ہاتھوں کا بہت لوگوں نے استعمال کیا۔ اگر آپ ان کے نظریے کے حامی ہیں تو آپ انھیں غیر گاندھی انقلابی کہیں گے اور اگر آپ ان سے اتفاق نہیں رکھتے تو آپ انھیں فسادی کہیں گے۔'
آر ایس ایس کے ہندو قوم پرست نظریے کی بنیاد بنکم چندر چیٹرجی کی تصانیف اور لالہ لاجپت رائے، وی ڈی ساورکر اور بال گنگا دھر تلک جیسے ہندو مہاسبھا کے رہنماؤں کی تصانیف میں نظر آتی ہے۔
آر ایس ایس پر پابندیاں
آرایس ایس نے خود کو ہمیشہ سماجی تحریک سے وابستہ رکھا اور انڈیا میں جاری جنگ آزادی میں شامل پارٹیوں سے دوری قائم رکھی۔ اس نے گاندھی کے مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی قائم رکھنے کے نظریے کو مسترد کر دیا۔ گاندھی ان کی راہ کے سب سے بڑے سد راہ تھے اور آر ایس ایس نے نہرو، گاندھی اور پٹیل کو تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیا۔
پہلی بار 24 جنوری1947 کو یونینسٹ پارٹی کے رہنما اور اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ملک خضر حیات ٹوانہ نے پنجاب صوبے میں آر ایس ایس پر مسلم نیشنل گارڈ کے ساتھ پابندی لگا دی تھی لیکن تین چار دنوں میں یہ پابندی ہٹا لی گئی تھی۔
دوسری بار انڈیا کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد چار فروری 1948 کو آر ایس ایس پر پابندی عائد کی گئی۔
اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ ان کا قتل کرنے والا ناتھورام گوڈسے آرایس ایس کا سابق رکن ہوا کرتا تھا۔ مہاتما گاندھی قتل معاملے میں جو جانچ کمیٹی قائم کی گئی تھی اس نے آر ایس ایس کو مہاتما گاندھی کے قتل سے تو بری الذمہ قرار دیا لیکن سردار پٹیل نے کہا تھا کہ 'گاندھی کی موت کے بعد آر ایس ایس کے لوگوں نے خوشیاں منائیں اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔'
آر ایس ایس کے سربراہ کو جب عدالت عظمی نے گاندھی کے قتل کے مقدمے سے بری کر دیا تو گولورکر نے نہرو کو خط لکھا کہ آر ایس ایس پر عائد پابندی اٹھا لی جائے۔ نہرو نے جواب دیا کہ یہ کام وزیر داخلہ سردار پٹیل کا ہے اور جب سردار پٹیل سے اس بابت رجوع کیا گیا تو انھوں نے گولورکر کے سامنے شرط رکھی کہ وہ عوامی طور پر ہندوستان کے آئين سے اپنی وفاداری کا اعلان کریں، انڈیا کے قومی پرچم ترنگے کو قبول کریں اور اپنی تنظیم میں اصلاحات لائیں جس میں سربراہ کے کردار کو واضح کیا گیا ہو وغیرہ۔
ان باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ آر ایس ایس نے کبھی انڈیا کے آئین کو دل سے قبول نہیں کیا اور بار بار مختلف حلقے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی ہمنوا پارٹی جب دو تہائی اکثریت سے حکومت میں آئے گی تو وہ اسے بدل دیں گے۔
اس تنظیم نے ایک زمانے تک اپنے ناگپور کے اپنے صدر دفتر میں ہندوستان کے قومی پرچم کی پرچم کشائی نہیں کی لیکن اب وہاں ترنگے کی پرچم کشائی ہوتی ہے۔ ویسے آر ایس ایس کا اپنا پرچم بھگوے (یعنی زعفرانی) رنگ کا ہے جو انھوں نے مراٹھا حکمراں شوا جی کے جھنڈے سے لیا ہے اور شواجی کی ساری شہرت مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر سے مسلسل دشمنی اور جنگ پر مبنی ہے۔
آر ایس ایس پر تیسری بار اندرا گاندھی نے ایمرجنسی (1975-1977) کے زمانے میں پابندی لگائی تھی اور پھر اس کے بعد 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد آرایس ایس سمیت کئی دوسری ہندو تنظیموں پر بھی پابندی لگائی گئی تھی لیکن ساری پابندیاں عارضی ثابت ہوئیں۔
اس کی ہمنوا تنظیموں کی ایک لمبی فہرست ہے جسے 'سنگھ پریوار' یعنی آر ایس ایس کا خاندان کہا جاتا ہے اور یہ دو درجن سے زیادہ پارٹیوں پر مشتمل ہے۔ ان میں بی جے پی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی ان کا سیاسی چہرہ ہے جبکہ اسی طرز پر بھارتیہ کسان سنگھ، بھارتیہ مزدور سنگھ وغیرہ ہیں۔
وہ پورے ملک میں شاکھا لگاتے ہیں جہاں لوگوں کو لاٹھی، تلوار، بھالے وغیرہ سے تربیت دی جاتی ہے۔ فی الحال ان کی تازہ رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں 84 ہزار شاکھائیں لگتی ہیں جن میں سے تقریبا 60 ہزار روزانہ لگتی ہیں۔ ان میں انھیں جہاں عسکری تربیت دی جاتی ہے وہیں انھیں حالات حاضرہ سے باخبر رکھا جاتا ہے۔
یہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم کہلاتی ہے اس کے کارکنوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
یہ ملک میں ابتدائی تعلیم کے لیے سرسوتی ششو مندر کے طور پر تقریبا 12000 سکول چلاتے ہیں جبکہ اتنے ہی سکول ودیا بھارتی کے نام سے ثانوی سطح کے چلاتے ہیں جہاں تقریبا 40 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔
کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 370 بھی ان کے ایجنڈے میں شامل تھے جسے تقریبا ایک ماہ قبل ختم کر دیا گیا۔ بی جے پی کو آر ایس ایس کے بہت سے ایجنڈوں پر کام کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر چند کہ کشمیر کی طرح آئین ہند کا آرٹیکل 371 بھی ہے جو مشرقی ریاستوں کو وہی حقوق فراہم کرتا ہے جو کشمیریوں کو حاصل تھے لیکن آرایس ایس یا بی جے پی ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتی کیونکہ وہاں مسلم آبادی نہیں ہے۔
آر ایس ایس نے جنگ کے زمانے میں انڈین فوجیوں کے ساتھ کئی محاذوں پر کام کیا ہے خواہ وہ چین کے ساتھ 1962 کی جنگ ہو یا پھر تقسیم کے وقت کشمیر کی جنگ ہو یا پھر پاکستان کے ساتھ متعدد جنگیں ہوں۔ اس نے پاکستان سے آنے والے ہندوؤں کی آبادکاری کے لیے بھی کام کیے اور جہاں کہیں بھی ہندوؤں کو ضرورت پیش آتی ہے ان کے کارکن دوڑے جاتے ہیں۔
کشمیر کو انڈیا میں شامل کرانے کے لیے گولورکر کی خدمات لی جاتی ہیں اور وہ کشمیر جاکر مہاراجہ ہری سنگھ سے ملاقات کرتے ہیں اور انھیں یہ بتاتے ہیں کہ 'آپ ہندو راجہ ہیں اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد آپ کی ہندو رعایا پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا۔' اور اس کے بعد ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ جانے پر ہامی بھر لی۔