سپارک نام سے یہ ایپ پیکسائل کمپنی نے بنائی ہے۔ فوٹو اردو نیوز
بڑے بوڑھے اکثر بچوں کو یہ سکھاتے آئے ہیں کہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں جینا سیکھو، لیکن زمانے کے بدلتے رنگ ڈھنگ میں اب حقیقت کی باتیں سکھانے کے لیے تخیلاتی دنیا کا سہارا لیا جانے لگا ہے۔
یہ ’آگمینٹیڈ ریالٹی‘ ہے جس کے ذریعے اب پاکستان میں بھی بچوں کو تعلیم میں سپورٹ فراہم کی جا رہی ہے۔
کراچی کی نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا (این ای ڈی) یونیورسٹی میں قائم نیشنل انکیوبیش سینٹر سے موبائل فون ایپلی کیشنز بنانے کی تربیت حاصل کرنے والے چند افراد نے ایک ایسی سمارٹ فون ایپ ایجاد کی ہے جو طلبا کی کتابوں میں موجود تصاویر اور ڈائیگرامز میں حقیقت کے رنگ بھر کے انہیں موبائل، ٹی وی یا پروجیکٹر سکرین پرحرکت کرتا دکھائی دیتی ہے۔
سپارک کے نام سے یہ اپلی کیشن پیکسائل کمپنی نے بنائی ہے، کمپنی کے شراکتی بانی فصیح ہنس مکھ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب نہایت غیر دلچسپ ہوتی ہیں اور بچوں کو جلد ہی اس سے بوریت ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر انہیں دلچسپ انداز سے ویڈیوز اور اینی میشن کے ذریعے کوئی سبق پڑھایا جائے تو وہ جلدی سیکھ جائیں گے اور ہمیشہ یاد بھی رکھیں گے۔
فصیح نے بتایا کہ سپارک ایپلی کیشن کے ذریعے آپ جب کتاب میں چھپی کسی تصویر یا ڈائیگرام پر کیمرا لے کر جائیں گے تو وہ تصویر حقیقی صورت میں سامنے آجائے گی اور موبائل سکرین پر حرکت کرنے لگے گی، اگر ٹی وی یا پروجیکٹر سکرین سے منسلک ہے تو وہ اینی میشن اس پربھی دکھائی دے گی۔
سپارک ایپ ایپل اور اینڈروئیڈ سٹورز پر دستیاب ہے، اس کے بزنس ماڈل کا انحصار اس کے استعمال کرنے والے افراد پر ہے۔ اس کے مختلف ورژنز چار سے 12 ہزار روپے ماہانہ پر دستیاب ہیں۔
تین ماہ قبل مکمل ہونے کے بعد اس ایپ کو پہلے مرحلے میں سکولوں کے اساتذہ کو فراہم کیا گیا ہے۔
فصیح نے بتایا کہ اب تک 20 سے زیادہ سکولوں میں 1500 کے قریب طالب علم اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہو رہے ہیں جب کہ اتنے ہی مزید تعلیمی اداروں میں اس کا اطلاق جلد متوقع ہے۔
پیکسائل کمپنی کا ارادہ ہے کہ سکولوں میں اس ایپلی کیشن کے کامیاب تجربے کے بعد وہ والدین کو بھی یہ ایپ فراہم کریں گے۔
اس وقت اس ایپلی کیشن میں نرسری سے لے کر میٹرک تک کی کتب کا مواد فیڈ کیا جا رہا ہے۔
فصیح کا کہنا ہے کہ وہ خود تعلیمی مواد نہیں پروڈیوس کر رہے کیوں کہ پہلے ہی اعلیٰ معیار کا مواد موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم تربیتی ویڈیوز اداروں سے معاوضے کے عوض حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو صرف اس ایپ کے ساتھ منسلک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘