Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر میں ایک ماہ کے دوران کیا ہوا اور کیا بدلا؟

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو تقریباً ایک ماہ ہو چلا ہے تب سے یہ ایشو مسلسل خبروں میں ہے۔
تازہ ترین حالات کے حوالے سے سری نگر میں موجود صحافی سمان لطیف کا کہنا ہے کہ ’انڈین حکام نے سخت ہدایات جاری کر رکھی ہیں، کہ مقامی لوگ گھروں سے باہر نہ نکلیں، سڑکوں پر فوج کی کثیر تعداد موجود ہے، سرینگر کے داخلی و خارجی راستوں پر بیریئرز لگائے گئے ہیں۔ پورا علاقہ لاکڈ ڈاؤن ہے، ٹیلی فون، موبائل، انٹرنیٹ سروس تاحال بند ہے۔‘
پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک مخصوص تاریخی پس منظر رکھنے والے کشمیر ایشو میں یہ تبدیلی کیونکر واقع ہوئی، یہ سب اچانک ہوا یا منصوبہ بندی سے، ایک ماہ کے دوران کیا کیا ہوا، ایسے دیگر سوالات کا جواب جاننے کے لیے پانچ اگست سے قبل اور بعد کے معاملات کا جائزہ بھی لینا پڑے گا۔

انڈین حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان پانچ اگست کو کیا تھا (فوٹو:اے ایف پی)

گورنر راج کا نفاذ

موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کے پہلے دور حکومت میں 19 جون 2018 کو اس وقت انڈیا کے زیراہتمام کشمیر میں گورنر راج نافذ کیا گیا جب مقتدر پارٹی بی جے پی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے اتحاد ختم کیا اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی مستعفی ہوئیں۔
دونوں جماعتوں نے انتخابات کے بعد 2015 میں اتحادی حکومت قائم کی تھی تاہم دونوں کے درمیان اختلافات موجود رہے تھے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی رہنما رام مادیو نے کہا تھا کہ ’بی جے پی کے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ کشمیر میں اپنے اتحاد کو قائم رکھ سکے‘ سکیورٹی صورت حال اور اس میں درپیش رکاوٹوں کے پیش نظر گورنر راج بہت ضرروی ہے‘
بی جے پی حکومت کے اقدام پر محبوبہ مفتی نے کہا تھا ’مجھے حیرانی نہیں ہوئی، ہم نے اتحاد حکومت میں آنے کے لیے نہیں کیا تھا، اس اتحادی کا مقصد بہت بڑا تھا، جس میں وزیراعظم کا پاکستان کا دورہ اور نوجوانوں کے خلاف قائم گیارہ ہزار مقدمات سے دسبتردار ہونا شامل تھا۔‘
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بندی کے تحت اٹھایا جانے والا قدم تھا۔

آرٹیکل 370 ختم کرنے کا اعلان

5 اگست 2019 کو انڈین حکومت نے وادی کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دو شقوں آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
جس کا سادہ مطلب یہ تھا کہ کشمیر کو انڈیا میں ضم کر لیا گیا اور اب وہ بھی دیگر انڈین شہروں  کی طرح ہو گا۔ اس سے قبل خصوصی حیثیت کا حامل ہونے کی وجہ سے کشمیر کا جھنڈا الگ تھا، غیر کشمیری وہاں زمین نہیں خرید سکتے تھے تاہم اب ایسا نہیں رہا تھا۔ اس حوالے سے جاری ہونے  والے صدارتی حکم نامے کے مطابق جموں کشمیر کو اب الگ ریاست نہیں یونین کا علاقہ تصور کیا جائے گا۔

کشمیریوں اور انڈین سکیورٹی فورسز میں جھڑپیں بھی ہوئیں (فوٹو:اے ایف پی)

کشمیریوں کا ردعمل

حکومتی فیصلے کے خلاف انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے شدید ردعمل کا امکان چونکہ پہلے سے موجود تھا جس کا سلسلہ شروع بھی ہوا تھا تاہم اسی روز ہی وہاں کرفیو لگا دیا گیا۔ ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروس وغیرہ بند کر دی گئی، فوج کی تعداد بڑھا دی گئی، حریت قیادت کو حراست میں لے لیا گیا اور تقریباً ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی وہاں یہی صورت حال چل رہی ہے۔

 

پاکستان کا ردعمل

چونکہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعے کا بنیادی نکتہ مسئلہ کشمیر ہی ہے اس لیے جب یہ خبر پاکستان پہنچی تو شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تاہم یہ زیادہ عوامی حلقوں اور حزب اختلاف کی پارٹیوں کی جانب سے تھا۔ حکومتی ردعمل کچھ تاخیر سے سامنے آنا شروع ہوا، جس پر اپوزیشن نے حکومت کو بھرپور تنقید کا سامنا بنایا۔ پاکستانی میڈیا نے ایشو کو بھرپور طور پر اٹھایا، پھر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جو آٹھ اگست کو ہوا، اس میں انڈین اقدام کے خلاف مذمت کی قرارداد بھی منظور ہوئی۔

 

عالمی ردعمل

عالمی سطح پر بھی معاملے کو کافی سنجیدگی سے لیا گیا اور تشویش کا اظہار کیا گیا، بیشتر بیرونی ممالک کی حکومتوں کی جانب سے دونوں ممالک پر زور دیا گیا کہ صبروتحمل کا مظاہرہ کریں اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح امریکہ، برطانیہ، کینیڈا سمیت جن ممالک میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے وہاں پر عوامی سطح پر شدید احتجاج دیکھنے میں آیا، یہاں تک کہ انڈیا کے اندر سے بھی اقدام کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ دوسری جانب عالمی میڈیا کی جانب سے کشمیر کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے وہاں ذرائع ابلاغ پر سے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔

 

انڈین سفیر کو پاکستان چھوڑنے کا حکم

مودی حکومت کے اقدام کے بعد پاکستان نے 7 اگست کو بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا جبکہ اپنے ہائی کمشنر کو نئی دلی نہ بھیجنے کا فیصلہ بھی کیا، پاکستان کے نئے ہائی کمشنر امین الحق نے 16 اگست کو بھارت جانا تھا۔ اسی طرح حکومت پاکستان کی طرف سمجھوتہ ایکسپریس کو بھی معطل کیا گیا، فضائی حدود کی بندش پر بھی غور کیا جاتا رہا تاہم ایسا ابھی تک نہیں ہو سکا، اس تمام تر کشیدہ صورت حال کے باوجود بھی کرتارپورہ راہداری کا کام نہیں روکا گیا۔

پاکستان کی جانب سے سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے اقوام متحدہ کو خط لکھا گیا (فوٹو:روئٹرز)

سلامتی کونسل اجلاس

پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج اور مطالبے کے بعد بھی انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے حوالے سے ہونے والے فیصلے کی عدم واپسی پر وزیر خارجہ کی جانب سے اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے خط لکھا گیا جس میں چین نے بھی پاکستان کی حمایت کی اور یوں سولہ اگست 2019 کو کشمیر کی صورت حال کے بارے میں اجلاس بلایا گیا، جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ایک مشاورتی اجلاس ہے اور رسمی یا باقاعدہ اجلاس بلائے جانے کا فیصلہ اسی اجلاس کی کارروائی کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ اجلاس میں پندرہ رکن ممالک کے نمائندے اور یونائیٹڈ کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان کے حکام نے شرکت کی۔ اس جلاس سے پاکستان کو بہت زیادہ امیدیں تھیں تاہم اس سے صورت حال میں کچھ بڑی تبدیلی واقع ہوتی نہیں دیکھی گئی۔ کوئی قرارداد پیش ہوئی نہ منظور، ان کیمرہ ہونے والے اس اجلاس کے بعد پڑوسی ملک چین کے سفیر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستانی موقف کی تائید کی تھی۔

 

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیے جانے کے دونوں ممالک کے تعلقات میں شدید تناؤ پیدا اور 15 اگست کو جنگی فضا بھی پیدا ہوئی۔
اس روز پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹ میں بتایا گیا کہ لائن آف کنٹرول پر انڈیا کی جانب سے پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کی گئی جس سے تین فوجی ہلاک ہوئے جبکہ جوابی فائرنگ میں پانچ انڈین فوجی مارے گئے، اس کے بعد بھی بارڈرز پر صورت حال کشیدہ ہے اور وزیراعظم کئی بار دنیا کو متنبہ کر چکے ہیں کہ دو ایٹمی قوتیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں کھڑی ہیں۔

گذشتہ جمعے پاکستان بھر میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کشمیر آور منایا گیا (فوٹو:اے ایف پی)

کشمیر آور

کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 26 اگست کو قوم سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے انڈین مظالم پر بات کرتے ہوئے عالمی برادری سے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی صورت حال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے ’کشمیر آور‘ کا اعلان بھی کیا جس کے مطابق ہر جمعے کو عوام گھروں سے نکل کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کریں گے، اسی ضمن میں پچھلے جمعے کو ملک بھر میں تقاریب کا اہتمام کیا گیا، مرکزی تقریب وزیراعظم سیکرٹریٹ کے لان میں ہوئی جس سے وزیر اعظم نے خطاب کیا۔ گیارہ سے ساڑھے گیارہ کے درمیان لوگ گھروں سے نکلے جبکہ آدھے گھنٹے کے لیے ٹریفک سگنل بھی سرخ کیے گئے۔
 

شیئر: