بات مختصر ہے، مصباح الحق جیسا کوئی نہیں (فوٹو اے ایف پی)
کرکٹ کی دنیا میں شاید ہی پہلے ایسا کوئی پاکستانی کھلاڑی آیا ہو جسے لوگوں نے ’قائد‘ کا مرتبہ دیا ہو۔
جی! مصباح الحق، پاکستان کرکٹ کی دنیا کے قائد، کرکٹ کے دیوانوں کے لیے امید کی کرن، اور میانوالی سے عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے بعد سب سے زیادہ چاہے جانے والے ’میانوالین‘ ہیں۔
میری بد قسمتی تھی کہ میں نے پاکستانی ٹیم کو لارڈز ٹیسٹ میں تباہ ہوتے ہوئے دیکھا اور پھر یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے مصباح الحق کو اسی ٹیم کو سنوارتے دیکھا۔ مصباح کا اس ٹیم کو سنبھالنا بہترین لفظوں میں ایسے بیان ہو سکتا ہے: ’مجھے چھو کر سونا کر دو‘
جی، سونا بنا دیا تھا میری ٹیم کو۔ اگر مجھے کوئی اجازت دیتا کہ میں مینارِ پاکستان کے ساتھ کس کا مجسمہ بناؤں، تو میں مصباح الحق کا ہی بناتی۔
یہ وہی مسیحا ہیں جن کی وجہ سے میں صبح تین بجے اٹھ کر نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ دیکھتی تھی۔ یہ وہی فرشتہ ہے جس نے ہمیں نمبر ون ٹیسٹ ٹیم بنایا۔ اور وہی بے غرض کھلاڑی ہے جس نے ایک روزہ کرکٹ میں 5000 یا زیادہ رنز تو بنائے لیکن ایک بھی سینچری نہیں بنائی۔
مطلب بندہ ریکارڈ بنائے تو ایسا بنائے کہ اگلے کو سمجھ ہی نہ آئے۔ اور یہ وہی مجاہد ہے جو ہر میچ میں ایک سائیڈ سنبھالے کھڑا رہتا تھا، جبکہ دوسرے اینڈ سے سب آؤٹ ہو کر پویلین ’امب‘ لینے جا رہے ہوتے تھے۔
یہ ایسے ہی لگتا تھا جیسے آپ کے سب دوستوں کی شادیاں ہوئی جا رہی ہیں اور آپ کنوارے کھڑے ان کی رخصتی ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اور میچ ختم ہونے پر لوگ کہتے تھے ’مصباح اپنے لیے کھیلتا ہے۔‘ بھائی اگر وہ اپنی وکٹ نہیں دیتا جبکہ باقی کے دس کھلاڑی اپنی وکٹیں کسی کی جھولی میں ڈال رہے ہوتے تھے تو اس میں مصباح کا کیا قصور؟ میں موہالی کا ذکر نہیں کرنا چاہتی، ورنہ یہ آرٹیکل خود ہی بھسم ہو جائے گا ۔ لیکن بات مختصر ہے، مصباح الحق جیسا کوئی نہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ قومی کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کوپاکستان کا نہ صرف ہیڈ کوچ بلکہ چیف سلیکٹر بھی بنا دیا ہے۔ مطلب اک نئی دو دو خوشیاں میرے جیسے دیوانوں کے لیے۔ لیکن کیا یہ فیصلہ ٹھیک ہے؟
میرے ایک دوست نے مجھے بتایا تھا کہ مصباح الحق فارغ وقت میں کسی بھی قسم کا کرکٹ میچ دیکھ لیتے ہیں۔ ان کے پاس بیٹھو تو بات بھی صرف کرکٹ کی تیکنیک پر کرتے ہیں۔ مجھے اس بات پر کوئی شک نہیں کہ ان کا کرکٹ کا علم کافی زیادہ ہے۔ لیکن تنقیدی فین کہتے ہیں کہ وہ بہت محتاط ہو کر کھیلتے ہیں، جسے انگریزی میں’Defensive‘ کہا جاتا ہے۔
ایک بات تو ماننے والی ہے کہ مصباح الحق کا ایک روزہ کرکٹ میں کوئی خاص ریکارڈ نہیں رہا۔ وہ کپتان بھی تھے ٹیم کے لیکن وہ ایک روزی کرکٹ میں جارحانہ انداز میں کبھی نہیں کھیلے۔ جس کی وجہ سے ٹیم بھی ’ڈیفنیسو‘ ہو گئی آج کا ون ڈے گیم تیز کھیل مانگتا ہے، لیکن کیا مصباح الحق ون ڈے کی یہ ضرورت پوری کر سکیں گے؟ یا ہمارے لڑکے بال سے ایسے ہی ڈرتے رہیں گے؟
دوسری بات یہ ہے کہ دو اختیارات مصباح الحق کو دے دیے گئے ہیں۔ ماضی میں بھی یہ مسئلہ رہا ہے کہ اگر ایک بندے کو زیادہ اختیارات دے دیے جائیں تو وہ وہی کرتا ہے جیسے کوئی ایک دم کروڑ روپے ملنے پر کرے۔ مطلب ’انـی مچا دے‘ اور کسی کی نہ سنے۔ ایک بندے کو سارے اختیارات ملنے پر مصباح الحق تو نہیں، لیکن ضیا الحق بننے کا ڈر ضرور رہتا ہے۔
لیکن میں کہتی ہوں ایک بار موقع دیں۔ ہو سکتا ہے مصباح الحق اور کرکٹ کے قائد کی ایسی پرفارمنس ہو کہ ہم واقعی ان کی مورتی بنانے پر مجبور ہو جائیں؟
دوسری اہم تعیناتی ہے وقار یونس کی جو کہ پاکستان کے بولنگ کوچ ہوں گے۔ وقار یونس نے ماضی میں بھی پاکستانی ٹیم کو کوچ کیا ہے لیکن بہت سے لوگوں کا خیال تھا وہ کھلاڑیوں کےساتھ اتنے’فرینڈلی‘ نہیں تھے۔ بندہ پوچھے وقار یونس ٹیم کو کوچ کر رہے ہیں، برادری میں رشتہ نہیں دے رہے جو وہ کھلاڑیوں سے نرمی سے بات کریں۔
میرے خیال سے پاکستانی ٹیم کو اس ٹائم بولنگ پیک کی اشد ضرورت ہے ۔ اور وقار یونس کے پاس بے تحاشہ تجربہ اور تیکنیک ہے جس سے وہ پاکستانی بولرز کو وسیم اور وقار کا کمبینیشن بنا سکتے ہیں۔
کیا میں اس انتخاب سے خوش ہوں؟ کیا قوم اس انتخاب سے خوش ہے؟ دیکھیں ہماری قوم قوم نہیں، سسرال ہیں۔ ان کو مکمل رازی کرنا مشکل کام ہے۔ لیکن آپ نے جیسے عمران خان اور پی ٹی آئی کو ایک چانس دیا ہے، ایک چانس مصباح الحق اور وقار یونس کو بھی دے دیں؟