قلعہ نوکوٹ میرپور خاص سے 63 کلومیٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے، تصویر: اردو نیوز
دنیا میں جتنے بھی قلعے اس وقت موجود ہیں، وہ محض اینٹوں اور گارے سے بنی ہوئی عمارات نہیں بلکہ یہ تاریخ کے نشان بھی ہیں۔ کئی محلاتی سازشیں اور تاریخی معاہدے ان قلعوں سے وابستہ ہیں۔ سندھ اس اعتبار سے کافی خوش قمست ہے کہ یہاں آج بھی کئی قلعے کافی بہتر حالت میں موجود ہیں اور انہیں دیکھ کر سندھ کی تاریخ کو ٹٹولا جاسکتا ہے۔
سندھ میں سمہ دور ہو ،کہلوڑا دور، یا پھر تالپور دور، ہر دور میں یہاں کے حکمرانوں نے اپنی رہائش اور حفاظت کے لیے قلعے ضرور تعمیر کروائے تھے، جس کی وجہ سے وہ سندھ پر حکمرانی کرنے کے قابل ہوئے، مگر تخت و تاج وفادار نہیں ہوتے اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ ویران ہونے لگتا ہے۔
سندھ کے قلعے آج ان بادشاہوں کے قصے کہانیوں کی تو یاد دلاتے ہیں مگر آج ان میں کوئی بھی بادشاہ تخت نشین نہیں ہے۔
قلعہ نوکوٹ میرپور خاص سے 63 کلومیٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔ بناوٹ کے لحاظ سے اسے ایک چوکور شکل کا قلعہ کہہ سکتے ہیں، اس قلعے کی شاہی دیوار کی حفاظت کے لیے دو برج بنائے گئے۔
قلعے کے گرد 12 فٹ کی کشادہ فصیل بنائی گئی جس پر چڑھنے کے لیے دو سیڑھیاں بھی ہیں۔ اس قلعے کی حفاظت کے لیے 9 برج تعمیر کیے گئے تھے، جن میں سے دو صدر دروازے اور مورچے کی نگہبانی کے لیے جبکہ چار برج کونوں پر اور باقی تین شمال جنوب اور مغرب کی دیوارں پر ہیں۔
قلعے میں داخل ہونے کے بعد اندر کی جانب سیڑھیاں ہیں، جہاں گول گنبد والا ایک کمرہ ہے، کہا جاتا ہے کہ یہاں بارود رکھا جاتا تھا۔ ایسے ہی کمرے جنوبی دیوار کے باہر بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس قلعے میں شمال والی دیوار کے قریب رہائش کے آثار بھی ملے ہیں جبکہ شاہی دروازے اور اندر والے دروازے کے قریب دونوں جانب محراب دار کمرے پہرے داروں کے لیے بنائے گئے تھے۔
یہ قلعہ 1814عیسوی میں میر کرم علی خان تالپور نے تعمیر کروایا تھا۔ کلہوڑا خاندان سے سندھ، میر فتح علی خان نے 1782عیسوی میں فتح کیا، انہوں نے حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے تین بھائیوں میر شیر علی، میر غلام علی اور میر مراد علی کو بھی حکومت میں شامل کیا۔ انہوں نے جودھ پور کے راجا سے 1813عیسوی میں عمرکوٹ کو فتح کیا اور سندھ کے دیگر حصوں سمیت تھر میں بھی چند قلعے تعمیر کروائے تھے۔
انگزیز عملدار جیمز برنس میروں کے قریب رہے، وہ اپنی کتاب "میروں کے دربار" میں میر کرم علی کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ 'میر کرم علی اپنے بھائی کے بالکل برعکس ہیں، اس کی بہادری تسلیم شدہ ہے۔ وہ دربار کے آداب اور رسومات کے مطابق ہنس مکھ، مہربان اور شفیق ہیں۔ وہ اچھی پوشاک اور دیکھا دیکھی کا شوق رکھتے ہیں۔ عام لوگوں کی خوشامد پسند کرتے ہیں۔ کچھ وقت قبل میر کرم علی بہت ہی شاہ خرچ تھے، اب بھی وہ سخی ہیں۔ اگرچہ سندھ کے حکمرانوں کی روایات کے مطابق پیسہ جمع کرنا شروع کیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ حیدرآباد میں خان کی آواز اس کے فائدے میں تھی کیونکہ وہ اپنی رعیت اور زیردستوں پر مہربان اور وعدے کے پکے ہیں۔ ان کی شکل خوبصورت اور عادتیں اچھی ہیں۔'
ماہر آثار قدیمہ اشتیاق انصاری اپنی کتاب "سندھ جا کوٹ ائیں قلعا" میں لکھتے ہیں کہ میر کرم علی خان ان خصوصیات کے ساتھ تعمیرات کا بھی شوق رکھتے تھے۔ تھر اور سندھ کے دیگر حصوں میں انہوں نے قلعے تعمیر کروائے۔ تھر کے کافی کوٹ تالپور دور سے منسوب ہیں، جوکہ مختلف ادوار میں میر حکمرانوں نے قائم کیے تھے۔
ایس ٹی ریکس، تھر اور پارکر کا احوال لکھتے ہیں کہ تھر میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے سندھ کے تالپور حکمرانوں نے بہت پیسہ خرچ کیا، تھر میں فوج رکھنے کے لیے کتنے ہی قلعے تعمیر کروائے گئے۔ اسلام کوٹ 1795 میں تعمیر ہوا۔
نوکوٹ 1814عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ سنگالا کوٹ کے لیے کہا جاتا ہے کہ 1800عیسوی میں تعمیر ہوا، ان میں سے ہر ایک قلعہ سات یا آٹھ لاکھ کی لاگت سے کم میں نہیں تعمیر ہوا ہو گا۔ یہاں سے فوجی عملدار نکل کر تھر کی زمین سے لگان وصول کیا کرتے تھے۔
آج جس جگہ پر یہ قلعہ قائم ہے، اسے جغرافیائی لحاظ سے "مہرانو" کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ سندھ میں جس طرح تھر ایک علاقہ ہے، اسی تمام تر تھر میں اس کے علاقائی نام الگ الگ ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا قلعہ ہے مگر دفاع کے لحاظ سے باقی قلعوں کی طرح یہ قلعہ خاصا محفوظ سمجھا جاتا تھا، لیکن انگریز عملداروں کی سازشوں اور تالپور حکمرانوں کی نا سمجھی نے ان سے اقتدار چھین لیا تھا۔
انگریز حکومت کے لیے میر شیر محمد مسئلہ تھے، حالانکہ میانی اور دوبے والی جنگوں کے بعد بہت سے سردار ان کے تابعدار ہو گئے تھے۔ انگریزوں نے اب صرف میر شیر محمد کو ہی زیر کرنا تھا، جو کسی طوفان کی مانند سندھ کے علاقوں میں گھوم رہا تھا۔
میر شیر محمد کے لوگوں کا ٹھکانہ اکثر تھر کے قلعے ہوا کرتے تھے، جہاں کارروائیوں کے بعد وہ یہاں پہنچ جاتے تھے۔ یہاں کے قلعوں پر قبضہ کرنا انگریزوں کے لیے مشکل تھا، وہ قلعوں کو منہدم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
مگر پھر بھی سندھ آخر کار انگریز عملداروں کے زیر اثر آ گیا اور سندھ کے دیگر قلعوں کی طرح نوکوٹ کا قلعہ بھی انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا اور تالپور حکمران اپنے اقتدار سے محروم ہو گئے۔
آج نوکوٹ کا قلعہ ایک سیاحتی مقام بن چکا ہے اور یہ بے حد خوشی کی بات ہے کہ قلعے کی بحالی کا اچھا خاصا کام ہو چکا ہے، جہاں مرکزی دروازہ لگایا گیا ہے اور اندر کے دروازے بھی نصب کیے گئے ہیں۔ فصیلوں اور دیواروں کی بہتر انداز سے مرمت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پرانے زمانے کی توپیں بھی رکھی گئی ہیں جو قلعے کی اس زمانے کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ نوکوٹ قلعے کو بحال کیا گیا ہے کیونکہ اس طرح کے قلعے ہمیں اپنا ماضی اور تاریخی حقائق سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
برجوں، فصیلوں، دیواروں اور توپوں والے اس قلعے میں اب صرف سندھ کے حکمرانوں کی یادیں رہ گئی ہیں۔