پاکستان کتے کے کاٹے کی ویکسین انڈیا سے درآمد کرتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
سندھ کے ضلع شکارپور میں مرض کی تشخیص میں مبینہ غفلت اور ریبیز ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث دس سالہ بچے میر حسن کی موت واقع ہوئی ہے۔
ضلع شکار پور کے نواحی گاؤں داؤد ابڑو کے رہائشی میر حسن کو عید سے دو دن پہلے کتے نے کاٹا تھا، تاہم مرض کی تشخیص میں غفلت اور ضلع بھر میں آوارہ کتے کے کاٹے کی ویکسین کی مبینہ عدم دستیابی کے باعث بچے کی حالت بگڑنے پر لاڑکانہ لایا گیا، جہاں کمشنر آفس کے سامنے اس کی موت واقع ہوگئی۔
میر حسن کے والد صفدر ابڑو جب منگل کی دوپہر بیٹے کو لے کر لاڑکانہ کمشنر آفس میں قائم اینٹی ریبیز ویکسینیشن سینٹر پہنچے تو مرکز کے انچارج ڈاکٹر نور دین قاضی نے کہا کے بچے کو ریبیز مرض لاحق ہے جو جسم میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اب اس کا بچنا تقریباً ناممکن ہے۔
یہ سن کر بچے کی والدہ کمشنر آفس کی پارکنگ میں ہی بیٹھ گئیں اور بچے کی جان بچانے کی التجا کرنے لگیں۔ ایسے میں مقامی افراد نے پرائیویٹ ایمبولینس کا بندوست کیا تاکہ میر حسن کو قریب واقع شیخ زید میڈیکل سینٹر لے جا کر اس کی جان بچانے کی کوشش کی جائے۔ تاہم میر حسن کی حالت مزید بگڑ گئی اور وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی جان کی بازی ہار گیا۔
میر حسن مرض کی شدت کے باعث تڑپتا رہا مگر ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث اس کا علاج نہ ہو سکا اور اس نے کمشنر آفس کے احاطے میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ موت کے بعد صفدر ابڑو اپنے بچے کی نعش لے کر واپس گاؤں چلا گیا، اور بچے کی ہلاکت کے حوالے سے پولیس کارروائی سے اجتناب کیا۔
صفدر ابڑو نے بتایا کے وہ اپنے بچے کو شکار پور میں بہت سے ڈاکٹروں کے پاس لے کر گیا تھا مگر کسی نے مرض کی درست تشخیص نہیں کی، اس کے یہ بتانے کے باوجود کے میر حسن کو کتے نے کاٹا تھا ڈاکٹر اس کو بخار کم کرنے کی دوا دیتے رہے۔ بچے کے والد کا کہنا ہے کہ جب ان کا بیٹا پانی سے ڈرنے لگا تب انہیں اندازہ ہوا کہ اسے کتے کے کاٹنے کا مرض ہو گیا ہے اور وہ اسے لے کر ہر جگہ گئے مگر کہیں سے بھی ویکسین نہ ملی تو بالآخر انہیں لاڑکانہ آنا پڑا۔
ویکسین کی قلت کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ
لاڑکانہ میں اینٹی ریبیز ویکسینیشن سینٹر کے انچارج کے مطابق جیکب آباد، شکار پور اور دیگر اضلاع میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی شدید قلت ہے، ایسے میں تمام اضلاع سے مریض لاڑکانہ آتے ہیں جس کی وجہ سے اب لاڑکانہ میں بھی ویکسین کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
دس سالہ میر حسن کی ہلاکت اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ رواں سال جون میں ٹھٹہ کے رہائشی 12 سالہ کاشف کی موت بھی ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث ہوئی تھی۔ ٹھٹہ میں ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے کاشف کے گھر والے دیسی نسخوں اور تعویذوں سے کئی ماہ تک اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے رہے، تاہم جب طبیعت زیادہ بگڑی تو اسے کراچی کے جناح ہسپتال لایا گیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں صرف لاڑکانہ ڈویژن میں آوارہ کتے کے کاٹنے کے 22 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ صوبے بھر میں ایسے کیسز کی تعداد 70 ہزار کے لگ بھگ ہے، جبکہ 12 اموات رپورٹ ہو چکی ہیں، جن میں سے چھ اموات کراچی کے ہسپتالوں میں ہوئیں۔
رواں ماہ ایک کیس کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ نے صوبے بھر میں اینٹی ریبیز ویکسین کی قلت کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ حکومت کو اس حوالے سے جواب جمع کروانے کے احکامات جاری کیے تھے۔
صوبے کے دیگر تمام اضلاع میں ویکسین ناپید اور معیاری طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث ایسے تمام کیسز کراچی بھیج دیے جاتے ہیں جہاں سول، جناح اور انڈس ہسپتال میں کتے کے کاٹے کے علاج کے لیے علیحدہ سیکشن قائم ہے تاہم اب وہاں بھی ویکسین کی قلت کا سامنا ہے۔
ویکسین کی درآمد میں خلل
اینٹی ریبیز ویکسین کی قلت کی بنیادی وجہ اس سال کے اوائل سے شروع ہونے والی خطے کی کشیدہ صورتحال ہے جس کے باعث انڈیا سے ادویات کی درآمدات خاصی متاثر ہوئی ہیں، اور پاکستان میں کتے کے کاٹے کی ویکسین ہندوستان سے ہی درآمد کی جاتی تھی۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں کتے کے کاٹنے کے سب سے زیادہ واقعات ہندوستان میں ہوتے ہیں اور وہاں بھی ویکسین کی کھپت کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے جس کے باعث برآمدات میں کمی کی گئی ہے۔
انڈیا سے درآمد کی گئی ویکسین کی قیمت ایک ہزار روپے جبکہ یورپ سے درآمد شدہ ویکسین 70 ہزار سے زائد میں ملتی ہے لہٰذا انڈین ویکسین خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
تاہم درآمدات میں رکاوٹ کے بعد ابھی تک ویکسین کی فراہمی کا متبادل بندوبست نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستان نے یہ ویکسین خود بنانا شروع کی ہے۔
کتے کے کاٹنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے شہری اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کتا مار مہم کا آغاز کیا جاتا ہے اور کراچی میں بھی یہ مہم کئی بار کی جا چکی ہے مگر سول سوسائٹی کے احتجاج کے باعث اس مہم کو روکا گیا ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ آوارہ کتوں کو مارا نہ جائے بلکہ ان کی نس بندی کی جائے، اس حوالے سے مختلف طریقہ کار زیر غور ہیں۔