پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے چونیاں میں چار بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا ملزم سہیل شہزاد خود بھی گزشتہ پندرہ سال سے جنسی زیادتی کا شکار رہا ہے اور پولیس اس کے ساتھ زیادتی کے کیس کی بھی علیحدہ تفتیش کر رہی ہے۔
تفیتیش کی نگرانی کرنے والے ضلع شیخوپورہ کے ریجنل پولیس آفیسر سہیل حبیب تاجک نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملزم جب بارہ سال کا تھا تو اس کے تندورچی استاد نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد مسلسل پندرہ برس تک ملزم زیادتی کا شکار ہوتا رہا تھا اور خود بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا رہا۔
منگل کو پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار نے اپنی نیوز کانفرنس میں ملزم سہیل شہزاد کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب اس بات کی 200 فیصد تصدیق ہو چکی ہے کہ زیادتی کے بعد چار بچوں کو قتل کرنے کے واقعے میں ایک ہی ملزم ملوث ہے۔ان کے مطابق ایک بچے کی لاش اور تین بچوں کی ہڈیوں سے ڈی این اے کے ذریعے ملزم کو شناخت کیا گیا۔
سینیئر پولیس افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملزم سہیل شہزاد نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ اس کے ساتھ خود بھی زیادتی ہوتی رہی ہے اور آخری بار گذشتہ ماہ اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بارہ سال قبل جب سہیل شہزاد بچہ تھا تو وہ چونیاں میں ہی روٹیاں لگانے کا کام سیکھ رہا تھا اس دوران اس کے استاد نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ سہیل تاجک کے مشاہدے کے مطابق بچوں کے ساتھ اس طرح کی زیادتی کے زیادہ تر مجرم خود زیادتی کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ پولیس ملزم کے ساتھ زیادتی کرنے والے کی تلاش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں تفتیش جاری ہے۔
پولیس ملزم تک کیسے پہنچی
سینیئر پولیس حکام کے مطابق چونیاں کیس کی تفتیش زینب کیس سے زیادہ مشکل تھی جس کی وجہ یہ ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج نہ ہونے کی وجہ سے ملزم کی قد و قامت اور جسامت وغیرہ کے حوالے سے کوئی معلومات نہ تھی۔ ایسے میں پولیس نے سی آئی اے، انٹیلیجنس بیورو اور دیگر اداروں کی مدد سے تفتیش شروع کی۔ سب سے پہلے جائے واردات کے اردگرد کے تقریبا 26 ہزار لوگوں کا مردم شماری کا ڈیٹا جمع کیا اور پھر سائنسی طریقے سے گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔
اس دوران چارہزار گھروں میں پولیس اہلکاروں نے گھر گھر جا کر معلومات جمع کیں اور اٹھارہ سے چالیس سال کے تین ہزار پانچ سو افراد کو شامل تفتیش کیا۔ جس کے بعد اٹھارہ سو مشکوک افراد کے ڈی این اے سیمپل جمع کیے گئے۔
تب تک پولیس سولہ سو اڑتالیس لوگوں کے ڈی این اے حاصل کر چکی تھی جب 1471 نمبر کا نمونہ متاثرہ بچوں کے جسمانی نمونوں سے مل گیا۔ یہ نمبر سہیل شہزاد کا تھا جس کو مشکوک ہسٹری کی وجہ سے لاہور سے بلا کر نمونہ لیا گیا تھا۔ ابتدا میں ملزم نے جرم سے انکار کیا مگر جب اسے ثبوت دکھائے گئے تو اس نے اقرار جرم کر لیا۔
ملزم پہلے بھی اسی جرم میں گرفتار ہو کر رہا ہوا
سینیئر پولیس افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملزم کو جنوری دوہزار گیارہ میں بھی ایک بچے کے ساتھ زیادتی کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا تھا اور اسے سزا بھی ہوئی تھی مگر اس نے بچے کے والدین سے صلح کر لی تھی اور ڈیڑھ سال بعد ہی رہا ہو گیا تھا۔
آر پی او شیخوپورہ جو کہ امریکہ سے تعلیم یافتہ اور ہیوبرٹ ہمفری فیلو ہیں، کے مطابق اس طرح کے جرائم کو صلح کی کیٹگری میں نہیں ہونا چاہیے تاکہ مجرموں کو رعایت ملنے کا دروازہ بند کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی دفعہ رہا ہو جانے کی وجہ سے ملزم بہت پراعتماد ہو چکا تھا کہ اسے پکڑنا مشکل ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے شہر سے دور کسی دوسرے صوبے میں نہیں گیا۔
ملزم کو بظاہر اپنے کیے پر کوئی ملال یا تاسف نہیں اور پولیس کے ساتھ اس نے پراعتماد انداز میں بات چیت کی۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ ضلع قصور کے قصبے چونیاں میں تین بچوں کے اغوا کے بعد ہلاکتوں کا معاملہ منظرعام پر آیا تھا جس کے بعد سے پولیس ملزم کی تلاش کر رہی تھی۔
ملزم کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ
بدھ کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پولیس کو ملزم سہیل شہزاد کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔
جج عبدالقیوم نے قصور کی تحصیل چونیاں میں چار بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل سے متعلق مقدمے کی سماعت کی۔
پولیس نے گرفتار ملزم سہیل شہزاد کو سخت سیکیورٹی میں اور چہرے پر کپڑا ڈال کر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا، دلائل کے لیے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالرؤف وٹو عدالت میں پیش ہوئے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں