شام سے آنے والے چند نوجوانوں نے اسلام آباد کی شام ہی بدل دی ہے۔ لوگ سرشام ہی بڑی رغبت سے اس مقام کا رخ کرتے ہیں جہاں شامی نوجوان بڑی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کرتے ہیں۔
آج کل تقریباً ہر شہر کی ہر گلی کے کونے پر شاورما کے سٹال دیکھنے کو ملتے ہیں، لگتا ہے ان کے درمیان ایک ریس چل رہی ہے قیمت کم کرنے کی بہ الفاظ دیگر کوالٹی گرانے کی۔
ان حالات میں چند شامی اسلام آبادیوں کو شوارمے کی حقیقی شکل دکھانے اور ذائقہ چکھانے کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ ہیں محمد عدنان، جنہیں ان کے ہم وطن ابو عامر بھی کہتے ہیں، وہ پانچ ماہ سے اسلام آباد میں شوارمے کا کاروبار چلا رہے ہیں۔
اردو نیوز نے جب ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے حیران کن طور پر کافی بہتر اردو میں بات کی۔
محمد عدنان نے بتایا کہ وہ سات سال قبل پاکستان آئے یہی وجہ ہے کہ کسی حد تک اردو سیکھ لی ہے، اسلام آباد میں پانچ ماہ قبل شاورما کا کام شروع کیا جسے پاکستانیوں نے بہت پسند کیا۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ پاکستان آنے کی کوئی خاص وجہ ہے؟ تو ان کا کہنا تھا ’مجھے شروع سے ہی پاکستان پسند ہے میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کسی دن پاکستان جاؤں گا اس لیے جب کاروبار کرنے کا خیال آیا تو میری پہلی ترجیح پاکستان ہی تھا۔‘
’اس لیے ویزے کے لیے اپلائی کیا جو کہ مل گیا اور یوں میں اور میرے ساتھی تب سے پاکستان میں ہیں۔‘
جب ان سے پاکستان میں مسائل کے حوالے سے دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’ایسی کوئی بات نہیں ہے، کسی مسئلے کا سامنا نہیں، ہم پرامن لوگ ہیں، اپنا کاروبار کرتے ہیں اور قانون کے دائرے میں رہتے ہیں اس لیے کوئی پریشانی نہیں ہے۔‘
پاکستان میں عام فروخت ہونے والے اور آپ کے شاورمے میں کیا فرق ہے؟ اس سوال کے جواب میں محمد عدنان نے بتایا کہ بہت فرق ہے۔ ’یہاں جو شاورما فروخت ہو رہا ہے وہ عربی شاورما نہیں ہے بلکہ شاورما ہی نہیں ہے اس کی صرف شکل شاورمے جیسی ہے۔‘
’ہم جو شاورمے تیار کرتے ہیں وہ مختلف اقسام کے ہیں جن میں فلافل، حمص، کُنافہ، بسبوسہ، بقلاوہ سمیت دیگر فلیورز شامل ہیں۔ اس میں استعمال ہونے والی روٹی، نان اور دوسرا سامان بھی ہم خود ہی تیار کرتے ہیں۔‘
شاورمے بنانے کی ترکیب خالص عربی ہے۔
عربی شاورمے میں مخصوص مصالحہ استعمال ہوتا ہے، گوشت کو مصالحے میں ڈال کر 24 گھنٹے تک رکھا جاتا ہے اور اسے تیز آنچ کے سامنے لٹکا کر اور گھما کر پکایا جاتا ہے اسے صرف کاٹ کر روٹی پر رکھنا ہوتا ہے، یہ انتہائی خوش ذائقہ ہوتا ہے۔
پاکستانی اور عربی شوارمے کے اجزا اور مصالحے میں بھی بہت فرق ہے۔
’اس میں استعمال ہونے والی روٹی، نان اور تورتیلا میں خود گھر پر بناتا ہوں، یہ آٹے کے میدے سے بنائے جاتے ہیں، جس میں کلونجی، تیل اور پانی ڈالا جاتا ہے۔ میں یہ گھر پر بناتا ہوں لیکن پاکستان میں دوسرے شوارموں کے لیے ایسا نہیں کیا جاتا۔‘
جب عدنان سے پوچھا گیا کہ کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ تو انہوں نے کہا بہت اچھا جا رہا ہے۔
’پیر، منگل، بدھ اور جمعرات کو سیل کم ہوتی ہے اور تقریباً سو رول، دس پلیٹ، فلافل، سینڈوچ تقریباً بیس، تیس۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو شوارمے تقریباً 150 سے 170 تک بکتے ہیں۔ ابھی کاروبار اچھا ہے پہلے کم تھا، اب لوگوں کو پتہ چل رہا ہے تو وہ آتے ہیں، آہستہ آہستہ کام بڑھ رہا ہے۔‘
عدنان کا مزید کا کہنا تھا کہ آج کل تو ہم صرف شام کو کام کرتے ہیں اورسات بجے شروع کرتے ہیں لیکن اب آنے والے چند دنوں میں یہ کام دوپہر کو دو بجے شروع کیا کریں گے۔
’بہت عرصہ میں اکیلا کام کرتا رہا، اب میرے ساتھ کام کرنے والے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ شام سات بجے شروع کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ سات بجے شروع ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب ہے صبح سات بجے، کیونکہ اس کے لیے لمبی تیاری کرنا پڑتی ہے، سامان لانا پڑتا ہے، روٹی نان وغیرہ بنانے کا سارا عمل گھر پر ہی ہوتا ہے، مصالحہ بھی وہیں بنتا ہے اور گوشت میں مصالحہ بھی وہیں ملایا جاتا ہے۔ ’خدا کا شکر ہے کہ لوگوں کو ہمارا ذائقہ پسند ہے اور وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان آنے کا تجربہ کیسا رہا، کیسا لگا یہ ملک، تو ان کا کہنا تھا ’پاکستان میری سوچ سے بھی بڑھ کر اچھا نکلا اور پھر اس کے شہر اسلام آباد سے تو مجھے اس حد تک انسیت ہو گئی ہے کہ لگتا ہے جیسے یہیں پیدا ہوا ہوں۔ یہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ لوگ عزت کرتے ہیں، محبت کرتے ہیں اور ہمارے لیے یہی سب کچھ ہے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں